داد بیداد۔ حاجی اقرار کی یا دیں۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

2اکتوبر 2025کو پشاور سے حا جی اقرار خان کی وفات کی خبر آئی تو لا کھوں مدا حوں کو ان کی جدا ئی کا بیحد صدمہ ہوا حا جی صاحب کی عمر 81برس تھی تاہم ان کی چہرے پر نو جوانی والی مسکرا ہٹ میں زند گی کے آخری لمحوں تک کوئی کمی نہیں آئی حا جی اقرار کی جد ائی جتنی پشاور میں محسوس کی جا ئیگی اس سے کہیں زیا دہ چترال میں محسوس کی جائیگی انہوں نے 1944ء میں ریا ست چترال کے پا یہ تخت چترال ٹاون کے مضا فاتی گاوں چمور کھون میں آنکھ کھولی بھر پور زند گی گذار نے کے بعد اسی گاوں کے آبائی قبر ستان میں مد فون ہوئے ان کے جنا زے میں دور دراز سے آنے والے 10ہزار سے زیا دہ سوگواروں کی شر کت سے سب کو اندازہ ہوا کہ وہ عوام و خواص میں کس قدر مقبو لیت رکھتے تھے ایک سال پہلے چترال اپڈیٹ کے صحا فی فیاض احمد کو انٹر ویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ چترال کے لو گ مجھے جو عزت اور محبت دیتے ہیں وہ میرے لئے اعزاز کی بات ,میں حیراں ہوتا ہوں کہ لو گ میرے ساتھ اتنی محبت کیوں کر تے ہیں؟ انہوں نے اپنی عمر کے 61برس پشاور میں گذارے نصف صدی سے زیا دہ پر محیط یہ عرصہ انہوں نے کا روبار کے ساتھ ساتھ لو گوں کی خد مت میں گذارا فارسی میں ایک بزرگ کا قول نقل کیا جاتا ہے جس کا تر جمہ ہے جس نے خد مت کو شعار بنا یا دوسروں نے اس کی خد مت کی ”ہر کہ خد مت کر د مخدوم شد“ ہمارے جن بزر گوں نے 1960ء کے عشرے کا چترال دیکھا ہے ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ زما نہ ہر لحاظ سے تنگی اور غر بت کا زما نہ تھا آمدو رفت کے ذرائع نہیں تھے، روزگار اور آمد نی کے وسائل محدود تھے سال کے چھ مہینے چترال کا رابطہ پورے ملک سے کٹا رہتا تھا قحط کا یہ حا ل تھا کہ اناج کے ساتھ نمک کا بھی قحط ہوتا تھا لو گ مٹی کا تیل، نمک اور غلہ کے لئے تحصیلدار سے پرمٹ لیکر ڈپو سے یہ چیزیں لیتے تھے فرانٹئیرکرائمز ریگو لیشن کے تحت لو گوں کو بغیر وارنٹ کے پکڑ کر جیل میں ڈالا جا تاتھا
سول عدالت کوئی نہیں تھی حا جی اقرار خان اور ان کے ساتھیوں نے اس دور میں لو گوں کی خد مت کی، مقا می سکول سے میٹرک پاس کر نے کے بعد انہوں نے خد مت کی نیت سے فارمیسی کا امتحا ن پا س کیا، 1964ء میں پشاور میں روزگار شروع کیا 1965ء کی پا ک بھا رت جنگ میں ایمر جنسی سروس کے لئے فارما سسٹ کی حیثیت سے ان کو پا ک فوج کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا پہلے سی ایم ایچ ایبٹ اباد میں اور پھر ملٹری ہسپتال جہلم صدر میں ڈیوٹی دی جنگ کے احتتام پر ان کو وار میڈل دے کر رخصت کیاگیا 1967ء میں میڈیسن کے کاروبار سے وابستہ ہوئے ان کی دکان گرین میڈیکل سٹور خیبر بازار کے نما یاں مقام سوئیکا رنو چوک میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے عقبی دروازے کے سامنے تھی اُس زما نے میں چترال سے پشاور تک پی آئی اے کی سروس ہوا کر تی تھی سوئیکا ر نو چوک کے قریب پی آئی اے کی شٹل بس مسافر وں کو لیکر ائیر پورٹ جا تی اور چترال سے آنے والوں کو اس جگہ اتار تی تھیسیمنٹ کی فراہمیاسکول کے لوازمات
اس وجہ سے چترال کے اکثر مسا فر پشاور پہنچنے کے بعد سب سے پہلے حا جی اقرار خان کی دکان پر جا تے اپنا دستی سامان ان کے پا س رکھتے اور پشاور میں جو کام ہوتا حا جی صاحب کے مشورے سے وہ انجام پا تا، لو گ بیماروں اور طالب علموں کے لئے تحفے تحا ئف اور نقد رقوم بھی حا جی اقرار خان کی دکان پر بھیجتے، حا جی صاحب بڑی توجہ کے ساتھ یہ اما نتیں ہر ایک کے حوالے کر تے یہ معمولی کام نہیں تھا مگرآپ نے پوری زند گی یہ فرض نبھایا، آپ کی شخصیت کرشما تی اثر رکھتی تھی صوبے کے چیف سکر ٹری سے لیکر چترال کے ڈپٹی کمشنر تک ہر سطح کے حکام سے آپ کے ذاتی تعلقات ہوا کر تے تھے، ان دنوں چترال کے لئے ہوائی جہا ز کا ٹکٹ لینا بڑا مشکل ہوتا تھا
ٹکٹ کے لئے بڑے بڑے افیسر بھی آپ کو فون کر تے اور ہسپتالوں سے علا ج کے بعد فارغ ہو نے والے بیما ربھی آپ کی طرف دیکھتے تھے آپ کے چہرے پر سب کے لئے ایک جیسی میٹھی اور دل کو بھا نے والی مسکر اہٹ ہو تی تھی اور خدا پر تو کل کر کے سب کا کام کر تے تھے پی آئی اے کا نیا سٹیشن منیجر آتے ہی آپ کا دوست بن جا تا اور یوں آپ کے لئے لو گوں کی خد مت کرنا آسان ہو جا تا آپ کا فون ملا نا اور مد عا بیان کرنا سب کے لئے سحر اور جا دو جیسا اثر رکھتا تھا حج اور عمرے کے لئے جا نے والے عازمین کا بڑا مسلہ غیر ملکی کرنسی کا معقول ریٹ پر حصول ہو تا ہے جو لوگ آپ سے رابطہ کر تے آپ ان کو چوک یا د گار کی کرنسی مارکیٹ کے چکر سے آزاد کر دیتے اور مطلو بہ کرنسی ایک فون کا ل پر لا کر فکر مندی سے جان چھڑا دیتیسیمنٹ کی فراہمی
گذشتہ کئی سالوں سے ان کا معمول تھا کہ دکان سے ملحق گوشے میں بیٹھ کر قرآن مجید کی تلا وت کر تے شاید تین یا چار دنوں میں قرآن پا ک ختم کر رہے ہو نگے اس کے ساتھ ساتھ کاربار اور خد مت خلق کا سلسلہ جا ری رہتا آپ کے جنا زے میں پرو فیسر ریٹائرڈ مسعود احمدخان 105کلو میٹر دور واقع اپر چترال کے گاوں ور کوپ سے چمو رکھون آئے تھے اور دیگر مداحوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے لو گوں کی طرف سے اس قدر بھر پور محبت غیر معمولی صلا حیتوں کے حا مل شخصیت کو ملتی ہے اور حا جی اقرار خان ایسی ہی کر شما تی شخصیت کے ما لک تھے اللہ پا ک ان کی روح کو اگلے جہاں میں اپنی بے پا یاں رحمتوں سے نوا زے