٭ لیڈر۔
بہت سے شکوک و شبہات کے بعد الیکشن کے دن پھر قریب اگئے۔ اللہ کرے یہ الیکش ہمارے اس ملک اور اس میں بسنے والے 22 کڑور عوام کے لیے امن، خوشحال، اطمینان،باہمی اخوت و یگانگت کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ اگرچہ پوری مسلم دنیا بلعموم اور پاکستان بالخصوص لیڈر شب کے حوالے سے قاید اعظم علیہ رحمہ کے بعد سے طویل خشک سالی کا شکار رہا ہے اور یہ قحط زدہ سر زمین روز بروز بنجر سے صحرا کی جانب منتقل ہوتی جارہی ہے۔ لیکن مایوسی گناہ ہے اور مسلمان کو ہر نئے صبح کا استقبال اس امید کے ساتھ کرنا چایئے کہ ؎ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی۔
٭ جمہوریت۔
اگر جمہور کی فلاح و بہنود کے لیے ہو تو بہت ہی بھلی بات ہے اگر چند افراد اور چند خاندانوں کی تعمیر و ترقی کے لیے ہو تو اس سے برا نظام کوئی اور نہیں۔ ہمارے اس ملک میں رائج جمہوریت کے لیے کسی نے خوب کہا ہے۔ ”جمہور کا ڈانڈا جمہور کے ہاتھوں جمہور کے سروں پے۔“میں بذات خود اس جمہوریت کا سخت ناقد رہا ہوں کہ ایک ”دین “ جو کے ایک نظام زندگی کا نام ہے کے ہوتے ہوے ہم امریکہ، یورپ اور بھارت کے نظام زندگی کے پیچھے ”صحرائے سینا“ کے بھٹکے ہوئے بنی اسرائلیوں کی طرح بھاگتے پھریں اور ” من سلویٰ “ کو لات مار کر پیاز و کریلہ اور کیرا اور بھنگن کا مطالبہ کریں۔ اور اس دوڑ کے صف اول میں ہمارے وہ رہنما شامل ہوں۔ جو اسلامی نظام لانے کے دعویٰ دار بھی ہوں۔یہ ویسا فریب ہے کہ ” سور کے گوشت کو بھینس کی کھال لپیٹ کر ” سنڈاری“کے نام پر فروخت کیا جائے۔ اگرچہ حالت نزع میں یہ بھی جایز قرار دیا جاچکا ہے اور ایسی بے بسی، بے کسی بلکہ بے غیرتی کے عالم میں اپاہچ، شوگر زدہ، کنسر زدہ اور تعفن زدہ جمہوریت کو بھی ”دور آمریت “ سے بہتر ہی کہنا چاہیے کہ کم از کم… لب آزاد ہیں تیرے۔
٭ تخریبی اور تعمیری سیاست۔
یہ بھی ایک بہت بدقسمتی ہماری رہی ہے کہ ہم ووٹر سے لیکر نمائیدے تک ذاتی پسند و ناپسند کو جمہوریت یا اپنا حق سمجھ کر مخالف امیدوار، اسکے کیے ہوئے کام یا اس کی پارٹی کی مخالفت اس انداز میں کرتے ہیں۔ کہ جس سے افراد، علاقے، معاشرہ اور ملک و مذہب کا بے پناہ نقصان ہوجاتا ہے۔اگر ہمارے کسی بھی بھائی کے ہاتھوں علاقے اور عوام کو جائز طریقے سے کچھ فائدہ مل رہا ہے۔اگر اس کام میں ہم اپنے مخالف کا دست و بازو نہیں بن سکتے تو اس کی مخالفت ہمیں نہیں کرنی چاہیے۔اور عوام کو بھی جرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تخریبی سیاست کا رخ بدل کر تعمیری سیاست کی جانب موڑنا چاہیے کیونکہ بحیثیت شہری یہ ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے۔
٭عوامی عدالت۔
ہر لوکل اور قومی الیکشن میں ہم اپنے قارین کے لیے غیر جانب دار سروے اور تجزیے پیش کرتے ہیں جو اللہ کے فضل کرم سے پسند بھی کیے جاتے ہیں اور کچھ حد تک درست بھی واقع ہوتے رہے ہیں۔ ایک مینہ سے زیادہ عر سے سے قارین کا اسرار ہے کہ عالم غیب سے نکل کر ”دیدار“ کرایا جائے۔ رمضان کی گوشیہ عافیت سے نکل کر چترال کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سو بہترین دماغ رکھنے والے افراد کی رائے لی۔ہمارے موجود ہ سیاسی میدان کے شہسواروں کی اھلیت،کام، خوبی اور کمزوری کے حوالے سے چار سوالات کیے اور جوابات کو فیصد میں ظاہر کیے۔میری کوشیش ہوگی کہ سب کی عزت و تکریم کا خیال رکھا جائے کیونکہ ہم سب ایک دوسرے کو بہت قریب سے جانتے ہیں۔یقینی بات ہے اس عوامی سروے سے سب خوش نہیں ہوں گے۔بس عرض اتنا ہے کہ سیاست وہ بندہ کرے جو تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ رکھے اور اپنی کمزوریوں کو قبول کرتے ہوئے اصلاح کی فکر کرے تاکہ اس کے ساتھ قوم کا بھی بھلا ہوسکے۔ ادب و احترام کا بھر پور خیال رکھتے ہوئے تراش خراش کے بعد تمام ہمدردیوں اور تعصبات کو ”چیو پل“ میں نظر آب روان چترال کرتے ہوئے یہ حوالہ اخبار کر رہا ہوں۔
سوالات۔۱۔ اہل کون ہوسکتا ہے؟ ۲۔ کام کیا کیا؟ ۳۔ کمی جو نہ ہوتی؟ ۴۔ خوبی کیا ہے؟
٭ اھلیت۔
ہمارے ملک میں رائج جمہوری نظام کے لیے چار قسم کے افراد دنیا بھر میں سیاست کے لیے کامیاب تصور کیے جاتے ہیں۔۱۔ قانون دان ۲۔ لوکل سیاست سے نکلے ہوئے افراد یا این جی اوز میں گراس روٹ پے کام کا تجربہ رکھنے والے افراد جو منصوبہ بندی کا تجربہ رکھتے ہوں۔ ۳۔ سول ملازمت میں اعلیٰ پوسٹ والے کیونکہ وہ منصوبہ ساز اور وسایل سے واقفیت رکھتے ہیں۔ ۴۔ جو عوام کو یکجا رکھنے کا ہنر جاتے ہوں تو وہ بزور بازو احتجاج کے ذریعے بھی عوام کی خدمت کروا سکتے ہیں۔
یہ چار افراد سیاست میں اھلیت کا درجہ رکھتے ہیں ، ووٹ زیادہ لینے اور عوام کاپسندیدہ ہونے کے لیے اور بھی کئی عوامل درکار ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں رائج جمہوریت جو لالچ، مکاری، عیاری، گروہ بندی، برادری، مذہب، تعصب، پارٹی اور وغیرہ وغیرہ کے عناصر سے مل کے بنا ہے اس لیے پارلمنینٹ میں اھلیت کے حساب سے صرف 4% لوگ منتخب ہوکے آتے ہیں اور باقی دیگر عوامل کے طفیل۔
٭ امید واران سیاست۔
٭ مجلس عمل۔
مولانا چترالی صاحب پہلے بھی قومی اسمبلی میں قوم کی نمائیدگی کر چکے ہیں۔چترال بھر میں اپنا ایک حلقہ اثر رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیدوار ہیں۔اھلیت کے حساب سے چوتھے نمبر میں ان کا شمار ہے۔ بوقت ضرورت لوگوں کو منظم کرسکتے ہیں اور لواری ٹنل کے حوالے سے یہ کئی احتجاج ریکارڈ کرواچکے ہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ ایک کال پہ دستیاب ہوتے ہیں۔کوئی مالی بدعنوانی اور دیگر الزمات سے پاک ہیں۔ کمزوری یہ ہے کہ دوسروں پر بے سروپا الزمات لگاتے ہیں، دوسروں کے کیے ہوئے کام کو اپنے کھاتے میں ڈالنے میں دریغ نہیں کرتے،چترال میں کم وقت دیتے ہیں۔ ان کی بے جا بیان بازی کے سبب چترال بھر میں سینکڑوں پراجیکٹس بند ہوئے ، موڑکھو میں سولرز کے منصوبے التوا کا شکار ہوئے اور علاقے کو بھی بہت نقصان ہوا، اب بھی سینکڑوں ٹھیکداروں کو پیسے ادا نہیں ہوئے اور پیچارئے لوگ ازیت کا شکار ہیں۔ اپنے دور میں بھی مولانا نے چترال میں کوئی خاص منصوبہ کامیاب نہ کر سکے۔ شغور چترال، اویر، شیشی کوہ ڑاوی چینلز ان کے دور میں ناکام ہوئے۔اس نے ان انجینیز اور ٹھیکڈاران کے خلاف کوئی اقدامات نہ کیے۔ مجلس عمل جیسے اسلام کی نفاذ کے نام پر ووٹ ملے تھے۔ اسلامی نظام کے لیے کوئی بھی عملی اقدامات نہ کیے۔
لیکن لوگوں کو یکجا رکھنے اور مذہبی جذبات کو ابھارنے کا فن جانتے ہیں۔ اس بار بھی سہرفہرست سیاست دانوں میں ان کا شمار ہوتا ہے اگر مذہبی اورنسلی تعصبات کو پس پشت ڈال کر زبانی گولہ باری کو کنڑول کیا تو بہت ہی اچھے رزلٹ دے سکتے ہیں۔ماہرین کا خیال ہے کہ مولانا صاحب21% ووٹ لے رہے ہیں جولائی سے پہلے تک کے سروے کے مطابق۔
ان کے پارٹنر JUI کے مولانا ہدایت صاحب کو سروے میں کوئی نمبرز نہیں ملے۔سوائے مجلس عمل کے نمائدہ ہونے کے علاوہ ان کی اور کوئی خوبی سامنے نہیں آئی۔ چترال بھر میں JUI کے پاس جدید تعلیم یافتہ اور علماء میں بھی کئی اچھے نام موجود تھے۔ وہ کیا ناگزیر وجوہات تھے جن کے سبسب انہیں نظر انداز کیا گیا۔ان کی خوبی یہ ہے کہ عید قربان میں آن لائیں قربانی کرواتے ہیں اور مدرسہ چلاتے ہیں۔لیکن کمزوری یہ ہے کہ جب اتحاد میں نہیں ہوتے تو ان کے پرچم کو درختوں پر بھی پسند نہیں کرتے۔
جناج سراج صاحب اور مولانا فضل الرحمان صاحب کے پل بھر میں دس رنگ بدلنے کے سبب بھی اب دینی پارٹیوں سے لوگ بدزن ہوتے جارہے ہیں۔اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جماعت اور جمعیت کو ووٹ دیکر اسمبلی میں ان کا ” حلالہ اور نکاح “ یک نہیں دس بار پی پی، مسلم لیگ اور پی ٹی ائی سے کرانے سے بہتر نہیں ہے کہ ان پارٹیوں کوبراہرست ووٹ دیا جائے۔ یہ سراج الحق کے زریعے کیچ دینے اور بڑے مولانا کے زریعے کٹ مار کر نواز،یا زرداری کواسلام کی… عظیم… مفاد پر وزیر اعظم بنانے کی کیا ضرورت ہے۔
٭ پیپلز پارٹی۔ جناب سلیم خان صاحب۔لوکل گورنمنٹ، کمیونٹی کے ساتھ کام کرنے اور دو بار صوبائی ممبر اور وزیر رہنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔دھیمے اور نرم مزاج رکھتے ہیں۔ اچھے اخلاق کے مالک ہیں۔اپنے علاقے کے لیے خوب کام کیے بہت سے بے روزگاروں کو ملازمین دلوائیں۔چترال بھر میں پی پی کے جیالے موجود ہیں۔ اسماعیلی کمیوٹی کے اکیلے نمائیدے ہیں۔ نجانے کیوں صوبائی نشست کو چھوڑ کر مرکز میں آگئے حالانکہ کام کراونے کے مواقع صوبے میں زیادہ ہوتے ہیں۔ان پر سنی برادری کو نظر انداز کرنے اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کے حوالے سے مخالفین نے الزمات بھی لگائے ہیں مگر یہ اپنا سیاسی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اگرچہ مستوچ سب ڈویژن کے برادری کے کچھ تحفضات بھی ہیں ۔ سروے کے مطابق یہ بھی گیم چینچ کرنے والوں میں شامل ہوسکتے ہیں اور23% ووٹ پہ یہ جارہے ہیں۔ان کے پارٹنر کو اگرچہ سابق ایم پی اے ہونے کا اعزاز حاصل ہے مگر کوالٹی کے حوالے سے اسے پانچ فیصد نمبرز ملے۔اپنے دور میں کئی ترقیاتی کام کروایے اب پورے چترال سے کھڑے ہیں۔ اچھے انسان مانے جاتے ہیں۔ دولت کی فروانی ہے اور خرچ کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔کمزوری یہ ہے کہ کسی بھی پارٹی میں جانے میں دیر نہیں لگاتے۔
٭پی ٹی ائی۔ جناب لطیف صاحب ایک سیاسی سوشل ورکر ہیں۔ آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔ اھلیت بانٹنے والوں نے اسے چترالی صاحب سے بھی کم نمبر دئے ہیں۔سونامی دور میں انہوں نے زبردست ووٹ لیے۔اچھے انسان ہیں۔ کمزوری یہ ہے کہ انصاف کے پرچم تلے ہونے کے باوجود حق کا ساتھ دینے کی جرت نہیں رکھتے اور اکثریت کے پیچھے بھاگنے میں دیر نہیں لگاتے۔ بدامنی کو صلع اور امن میں بدلنا ایک لیڈر کا کام ہوتا ہے تیل کو ماچس دیکھنا نہیں ان کے اور ان کے پارٹنر کی ناپختگی کی بدولت ایک سال سے کریم آباد کے باسی موشیوں کے چراگاہ سے محروم ہیں جو نہیں ہونا چایئے تھا۔
بحرحال ان کے پارٹنر جناب صوبور صاحب این جی اوز میں سروس کا تجربہ رکھتے ہیں اور اھلیت کے حساب سے دوسرے درجے میں شمار ہوتے ہیں۔اسماعیلی برادری کے واحد نمائیدہ ہیں۔چترال کے مسائل سے اگاہ ہیں البتہ سیاسی معاملات میں تجربہ کم رکھتے ہیں۔ سروے کے مطابق پی ٹی آئی کے پاس اس وقت 22% ووٹ ہیں۔
٭مسلم لیگ نون۔ جناب شہزادہ افتخار الدین صاحب۔بغیر پارٹی سپورٹ کے ایک بہترین نمائدہ قرار پائے حالیہ پارلمنیٹ میں بھی کارکاردگی کے لحاظ سے تیسرے نمبر پہ رہے جوچترال کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اپنے دور میں تاریخی کام کروائے جن کا تذکرہ ہمارا موضوع نہیں۔ علاقائی،ملکی اور بین القوامی این جی اوز کا کام کا طویل تجربہ رکھتے ہیں اور چترال کے لیے ایک ویژن رکھتے ہیں۔اھلیت کے لیے دوسرے درجے میں سرفہرست ہیں۔ وغیرہ وغیرہ کی بھر پور کوشیشوں کے باوجود ” ن“ کا انتخاب کیا حالانکہ یہ اگر چاہتے تو پی ٹی آئی والی سیٹ سے بھی کھڑے سوسکتے تھے۔ ”ن “ گورنمنٹ نے چترال میں ریکارڈ فنڈ استعمال کیے اور ان سے بے وفائی ان کھٹن حالات میں بھی انہوں قبول نہ کیا۔خوبی بہت سارے ہیں کھرے، سادہ، اور اصول پرست انسان ہیں۔اس کی کمزوری یہی ہے کہ بے لچک انسان ہیں جوہم جیسے چال بازوں کے لیے موزوں تصور نہیں کیا جاتا۔ وکرکرز سے دور مانے جاتے ہیں سیاسی داو پیچ اور مخالفین کے لیے الات جدید کے استعمال پر یقین نہیں رکھتے۔ جلد غصے میں آتے ہیں۔ ان کے پارٹنر جناب ایڈوکیٹ عبدالولی خان بطور ایک ماہرقانون دان ہیں۔ اھلیت میں سب سے آگے ہیں۔کوئی عوامی بڑے عہدے پر نہیں رہے مگر چترال کی جہاں بات کی جرت اور حوصلے سے بات کی۔چترال کے توانا آواز ہیں۔خوبی یہ ہیں کہ چترال میں ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ کمزوری یہ ہے کہ بہت ساری پارٹیوں میں رہے۔لگتا ہے اس سال شیر پہ سوار ہوکے دیکھائیں گے۔ سروے میں مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ 24% ووٹ ملنے کے اشارے ملے ہیں۔
٭ اے این پی۔ جناب عیدحسین صاحب ایک شعلہ بیان مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست سیاسی وارکر رہے ہیں۔اور بہت ساری پارٹیوں کی کمزوریوں اور چترالی سیاست کے داوپیچ سے آشنا ہیں اور ان کے پارٹنر ڈاکڑ سردار بھی ایک اچھی شہرت کے حامل شخصیت ہیں۔ کوئی بڑا حکومتی عہدہ ان کے پاس نہیں رہا۔ اے این پی نے اپنے دور میں چترال میں زبردست کام کروائے جبکہ یہاں ان کا یک بھی ویلج کونسل کا ممبر بھی موجود نہیں تھا۔ ماہرین کا خیال ہے یہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے سکتے ہیں اگر سیاسی اتحاد میں آتے تو انہیں بہت فائدہ ملتا۔ ان کا موجودہ 9% بنتا ہے۔ان کے علاوہ تین فیصد ووٹ آزاد امیدواراں لے سکتے ہیں۔
٭ کھو سیاست۔پاکستان کے دیگر مقامات کی طرح چترال میں بھی بہت سارے عوامل ایسے ہیں جو الیکشن کا رخ موڑ دیتے ہیں ۔ اور چترال میں بھی ”اھلیت“ جو کے ووٹ جتنے کا معیار ہونا چاہیے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ بلکہ کچھ ایسے تعصباب بھی سامنے آجاتے ہیں جو گاریگر ثابت ہوتے ہیں مثلا پارٹی، براداری، ذاتی پسند، مذہب، مدرسہ،مسجد ، قراّن، استازی شاگردی،شفاعت، امانت،دوزخ،جنت، جائز ناجائز، بہیل نابہیل کفر تک کے فتوے،الزام تراشی،حسد، بغض، وارکرز، اشتہارات، حکمت عملی، علاقہ پرستی جیسے عوامل بھی 50% تک پوزیشن کو مضبوط بنا دیتے ہیں۔اھلیت کے گراف میں مسلم لیگ نون کے پاس 2 پوائنٹس۔ پی ٹی آئی کے پاس ڈھیڑ پوائنٹس۔ پی پی اور ایم ایم اے کے پاس ایک ایک پوائنٹس ہیں۔اگر چترال کے روایتی سیاست کے لوازمات کو شامل کیا جائے تو ایم ایم اے اس میدان میں 21% کے نصف شامل کرنے کے بعد31% کے قریب پہچ سکتا ہے کیونکہ ایم ایم اے مذہب کے ساتھ دیگر تمام جائز ناجائز کے حدود کو پار کر کے سرفہرست رہے گی پی ٹی آئی 22% اھلیت کے ساتھ وارکرز اور دیگر عوامل کا استعمال کرے گی مگر مذہبی کارڈ کی سہولت دیگر دو جماعتوں کی طرح انہیں بھی میسر نہیں تو 8% مذید ووٹ کے ساتھ 30% پہ کھڑا ہے۔ پی پی 23% میں مزید 9% بڑھا کر 32% تک لے جائے گی۔ مسلم لیگ جو اھلیت میں سب سے آگے 24% پہ کھڑی تھی ان کے پاس کارکنان کی بہت کمی ہے اور ہمیشہ رہی ہے خود اوریجنل نون والے بھی اپنا جسد خاکی لیے شہزادہ افتخار اور ایڈوکیٹ عبدالولی صاحب کے ساتھ بے شوق پھیر رہے ہیں اس لیے دونوں نمائددوں کو اپنے اوریجنل واکران کو زیادہ سے زیادہ فعال رکھنا ہوگا۔اور ان کی دن رات کی جدوجہد کے بعد اگر انہیں 7% روایتی ووٹ دستیاب ہوئے تو یہ 33% تک جاسکتے ہیں۔اس طرح آنے والا الیکش ایک دلچسپ اور کانٹے دار ہوگا۔اس الیکشن میں علاقے اور برادریاں بھی خوب رنگ جمائیں گی۔دورش تحصیل سے صرف شہزادہ افتخار کے لیے خالی ہے۔
مستوج جناب غلام محمد کے لے۔ تورکھو جناب عیدالحسین کے لے۔برنس ، گولین، کوہ کے علاقے چترال بلکہ ارندو تک ایڈوکیٹ عبدالولی خان کے لیے پسندیدہ مقامات ثابت ہوسکتے ہیں اور ولی صاحب چترال بھر میں اور بھی بہت حوالوں سے ای حلقہ اثر رکھتا ہے جو دیگر امیدواران کو حاصل نہیں حالیہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل اور آنے والے منصوبے جو تیار کھڑے ہیں جن میں خصوصا گیس، روڈ اور بجلی شامل ہیں صرف الیکشن کی دیر ہے کے سبب شہزادہ افتخار ایک مضبوط امیدوار کے طور پر آگے ہیں۔ اور سروے پینل کا متفقہ رائے ہے پاکستان بھر میں اگر مسلم لیگ کو اگر حکومت نہ بھی ملی تو شہزادہ افتخار جیتنے کی صورت میں بھی پی پی ائی گورنمنٹ سے بھی کام نکل واسکتے ہیں کیونکہ عمران خان کے ساتھ ان کے قریبی تعلق موجود ہیں اور دیگر لیڈران کے ساتھ بھی۔
٭ گزارش فقیر۔ یہ سروئے جولائی تک کے لیے ہیں ابھی الیکشن میں بہت دن باقی ہیں اور روایتی سیاست کے رنگ ابھی شروع نہیں ہوئے جو ان تمام توقعات کو حیرت انگیز طور پر بدل بھی سکتے ہیں اور… وغیرہ وغیرہ… کا رول بھی بہت اثر دیکھا سکتا ہے اور اس پہ کام بھی تیزی سے جاری ہے۔
اللہ کرے یہ الیکش چترال اور پورے پاکستان کے لیے خوشحالی، امن اور کرپشن کے خاتمے کا سال ثابت ہو ں اور لوٹیروں کے لیے بربادی کا۔ہمارئے تمام امیدواروں اور ان کے کارکنان سے گزارش ہے کہ صبر برداشت،اور باہمی عزت و احترام کے رشتے کو برقرار کھتے ہوئے الیکش کے لیے دوڑ دھوپ کریں۔ خصوصا ایم ایم اے والوں کو چاہیے کہ مساجد، قرآن اور دین کو ڈھال بناکر چند دنوں کی بے ثبات زندگی کے لیے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔جو مناسب طریقہ کار رائیج ہے اس کے اندر رہتے ہوئے ووٹ کا تقاضا فرمایں۔مقدر میں اسی کو یہ مرتبہ ملے گا جسے اللہ دینا چاہے۔اللہ ہم سب کا حامی ناصر ہو۔
٭٭٭٭