داد بیداد۔۔اطالوی سما ج کی ایک جھلک۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

اردو میں اٹلی کے لئے اطا لیہ کا نا م بھی مروج ہے اطالوی معاشرہ اپنی الگ انفرا دیت کا حا مل ہے خا مو شی اس معا شرے کی نما یاں خصو صیت ہے بس سٹا پ، ریلوے سٹیشن پر یا کسی پا رک اور ریسٹورنٹ میں لو گوں کا جمگھٹا ہو گا مگر کھسر پھسر نہیں ہو گی کسی کی آواز سنا ئی نہیں دیگی یہاں کی خوا تین بھی اس حوالے سے تما م دنیا کی خوا تین سے مختلف ہیں، صفا ئی بھی بے مثا ل ہے پید ل راستوں اور پگڈنڈیوں پر کو بل سٹون (Coblle Stone) کے ذریعے پختہ رہگذر بچھا ئی گئی ہے کسی کا کتا، اگر چلتے چلتے رفع حا جت کرے تو ما لک یا ما لکن کے پاس شاپر ہو تا ہے فوراً اس کو شا پر میں ڈال کر قریبی کوڑے دان تک لے جا کر ٹھکا نے لگا یا جاتا ہے، اور ہم جیسے دیکھنے والے حیرت زدہ ہو جا تے ہیں اطالوی سما ج میں معا شرتی اور سما جی انصاف بھی دیکھنے کو ملتا ہے غریب اور بے اسرا کے لئے سما جی تحفظ کے نا م سے با کفا یت وظا ئف ملتے ہیں علا ج معا لجہ کا نظا م بیمہ کمپنیوں کے ساتھ منسلک ہے، ادارہ جا تی طور پر ہیلتھ انشورنس کی سہو لت الگ ہے جس کا ہر ادارہ ذمہ دار ہے، سرکاری سطح پر الگ نظا م ہے جو حکومت کے ذمے ہے انفرادی طور پر دولت مند لوگ لا زمی طور پر بیمہ پا لیسی سے منسلک ہو تے ہیں با ہر سے آنے والے سیا حوں کے لئے بھی ہیلتھ انشورنس لا زم ہے ہسپتال کا ہر ڈاکٹر مریض کو اپنا فون نمبر دیتا ہے اور 24گھنٹے اس کے کا ل وصول کرتا ہے، عدالتی نظام با لکل سادہ ہے، تین یا چار پیشیاں ہوتی ہیں اور مقدمہ کو انصاف کے ساتھ نمٹا یا جا تا ہے اشفاق احمد نے 1960ء کے عشرے میں لکھا تھا کہ روم کی عدالت میں ٹریفک کا چالان بھر نے آیا اور بتایا کہ میں استاد ہوں، مجسٹریٹ یہ سن کر اپنی نشست سے اُٹھ کھڑا ہوا، دوسرے لو گ بھی کھڑے ہوگئے اس نے کہا استاد آیا ہے اس کا احترام کرو، پھر جلدی جلدی چالان کی کاروائی مکمل ہوئی اور مجسٹریٹ نے احترام کے ساتھ استاد کو رخصت کیا، نصف صدی بعد دنیا بدل گئی روم کی عدالت کا وہی منظر ہے، غریب سے غریب شہری بھی عدالت کو ماں باپ سے زیا دہ ہمدرد سمجھتا ہے بازار میں سودا سلف خرید نے کے لئے کوئی بھی جیب میں پیسے نہیں رکھتا، کریڈیٹ کارڈ پر ادائیگی ہوتی ہے فلنگ سٹیشن یعنی پمپوں پر تیل ڈلوانے کے لئے خود کار نظام ہے کریڈٹ کارڈ پر آدمی خود تیل ڈالے تو سستا پڑتا ہے، زیا دہ افرادی قوت ٹرانسپورٹ خا ص کر ریلوے سے منسلک ہے اس لئے مزدوروں کی ہڑ تال ہو تی ہے تو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے مہینے بھر میں دو تین ہڑ تالیں ہو تی ہیں اس لئے دعا مانگنے والے اچھے موسم کی دعا کے ساتھ یہ دعا بھی کر تے ہیں کہ اس ہفتے کوئی ہڑتا ل نہ ہو، تعلیم کی بات کی جا ئے تو پا کستانی سیاح کے لئے حیرتوں کا باب کھل جا تا ہے اٹلی میں بہترین سکول سرکاری سکول ہوتا ہے جس کو پبلک سکول کہتے ہیں اس سکول میں ذریعہ تعلیم اطالوی زبان ہے، داخلہ کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے تین چار مہینوں میں داخلے کے ہفت خواں طے ہوتے ہیں، فاروق کی 4سالہ بیٹی ارحاء فاروق اسی سکول میں پلے گروپ کی سٹوڈنٹ ہے فر فر اطالوی زبان بولتی ہے مصطفی پرائیویٹ سکول میں دوسری جما عت کا سٹوڈنٹ ہے، عمر بھی اُس سکول میں پا نچویں جما عت کا سٹوڈنٹ ہے سکولوں میں کوئی نصابی کتاب نہیں، بچوں کے سکول بیگ میں ایک کلو کے برابر وزن بھی نہیں ہو تا، سپورٹس کے مختصر کٹ بیگ میں رکھ کر لے جا تے ہیں دوپہر کا کھا نا سکول میں ملتا ہے ہر مذہب کے بچے کا الگ کھا نا ہوتا ہے ہر سکول کسی سپورٹس کلب کے ساتھ منسلک ہے، سہ پہر کے آخر میں سکول کے بچے اپنے اپنے کلب میں کھیلتے ہیں کوچ ان کی نگرانی کر تا ہے شام کو گھر لوٹتے ہیں والدین یا سر پرست کو اجا زت ہے کہ بچے کے ساتھ کلا س روم میں جا ئے استاد اور سٹوڈنٹس سے ملے، پڑھا ئی کا اسلو ب یہ ہے کہ بچے کومشاہدہ، بیان اور تحریر سکھا نے پر تو جہ دی جا تی ہے، قومی نصاب کے مطا بق سبق کا عنوان بتا یا جا تا ہے اس عنوان پر بچوں کو بولنے کی دعوت دی جا تی ہے بچے بولتے ہیں تو استاد ان کی اصلا ح کر تا ہے یا شا باش دیتا ہے تیسری جما عت سے آگے بچوں کو لکھنے کی ترغیب دی جا تی ہے، لائبریری سے کتا بیں دی جا تی ہیں ان کے مطا لعے کے بعد تبصرہ لکھوا یا جاتا ہے، عمر اس ہفتے جو نا تھن سوئفٹ کی کتاب گلیو رز ٹریولز کا مطا لعہ کر رہا ہے گذشتہ ہفتے اس نے روم کی تاریخ پر 3ہزار الفاظ کا تحقیقی مضمون لکھا آخر میں 7کتا بوں اور 10مقا لوں کے حوالے بھی لکھے تھے، استاد نے مضمون کو پڑھ کر شاباش دی اور اگلے ہفتے کے لئے بایو ما س انر جی پر نیا اسائمنٹ دیدیا مسلمان اپنے بچوں کو ہفتہ اور اتوار کے دن مسجد میں قرآن پڑھنے کے لئے بھیجتے ہیں، باقی دنوں میں آن لائن قاری یا قاریہ کی خدمات حا صل کر کے قرآن کی تعلیم جا ری رکھتے ہیں اطالوی سما ج کی یہ جھلک صرف ابتدائیہ ہے اس ابتدائیہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آگے جا کر کیا کچھ ہوگا