ابھی تک تقریبا یہ روایت رہی ہے کہ استاذ پڑھانے کے لیے ہوتا ہے۔بچے کی انگلی پکڑ کر ألف با لکھواتا ہے۔۔سمجھاتا ہے کہ قلم یوں پکڑو۔۔حروف شناسی،جوڑ توڑ،ڈایوگرافی،ٹرایوگرافی،ارتھوگرافی، کیلی گرافی یہ سب سمجھانا سیکھانا استاذ کی ذمہ داری تھی۔یہ سب کام کلاس روم میں ہوتے تھے پھر آگے بڑی کلاسوں میں مشقی اور عملی (پریکٹیکل) کام کرایے جاتے۔ساتھ تربیت ہوتی۔۔استاذ کا ایک روپ ہوتا،بچے کو سرزنش کا خوف ہوتا یہ تعلیم و تربیت کا عملی روپ تھا لیکن زمانہ بدلا ہے۔دور ڈیجیٹلایزڈ ہے۔۔ہم سائنس کی دنیا میں جی رہے ہیں۔اقدار اور تقاضے کچھ اور ہیں اس لیے استاذ کے کام میں بھی تبدیلی آٸی ہے اگر استاذ اس کو محسوس کرے۔آج پڑھانے کے لیے یوٹیوب،انسٹاگرام،گوگل اور کیا کیا دستیاب ہیں۔ہر فن اور مضمون کا ماہر اپنی مہارت لے کے انتظار کررہا ہے۔بچے کی جیب میں سمارٹ فون پڑا ہے۔کوٸی بھی مسئلہ ہو لکھ کر گوگل کو، metaAl کو،یو ٹیوب کوحوالہ کرتا ہے اس کو تیار مواد مل جاتی ہے اس کو استاذ کی شاید ایسی ضرورت محسوس نہ ہو اب استاذ کا کام کیا رہ گیا یے وہ تربیت ہے۔اقدار سیکھانا ہے اخلاق کا درس دینا ہے۔اس کے لیے کلاس روم سب سے موثر جگہ ہے۔یورپ نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے نشے میں اقدار کی پرواہ نہیں کی تو پچھتاگئے پھر ہوش میں آیا تو نیچرل سائنس کی جگہ سوشل سائنس کو اہمیت دینے لگا۔انہوں نیقانون کی اہمیت کو سمجھا آج وہاں کی عدالتوں میں کوٸئ مسلمان جج نہیں لیکن انصاف ہے ان کے حکمران مسلمان نہیں مگر کرپٹ نہیں۔یہ ایماندار جج،یہ قانون کے پابند پولیس،یہ اپنے کام سے کام رکھنے والے محافظ،یہ محنتی استاذ،یہ صادق امین حکمران کہاں سے آتے ہیں یہ کلاس روم سے آتے ہیں ان کو کسی استاذ نے پڑھایا ہے۔اگر استاذ صادق یے تو صداقت پڑھاۓ گا اگر امین ہے تو امانت پڑھاۓ یہ تو لازم ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ ہمارا استاذ کیا کر رہا ہے ان کا شاگرد سی ایس ایس کررہا ہے اکیڈیمی میں جاتا ہے تو وہاں کے استاذ اس کو درد انسانی اور خدمت انسانی نہیں پڑھاتے فرغونیت کا درس دیتے ہیں وہ آکے کرپشن کا بادشاہ بنتا ہے تو اس کا عملہ کرپشن نہیں اور کیا کرے گا۔استاذ محترم کا شاگرد وزیر اعظم بنتا ہے وہ اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اس کے پاس انسانیت کا لبادہ نہیں ہوتا وہ آسمان سے اتری ہوٸی کوٸی مخلوق ہوتا یے ہم نے ملک خداداد میں کوٸی خاکسار وزیر اعظم نہیں دیکھا جو لوگوں میں سے ہو اور انسانوں سے انسانوں کے لہجے میں بات کرے۔ یہ کہاں سے وارد ہوتے ہیں یہ کسی استاذ کے تربیت یافتہ ہیں۔آجکل یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ بحیثیت قوم ہماری تربیت نہیں ہورہی اس لیے استاذ کی اہمیت میں نمایان کمی آٸی ہے۔ججز کے مراعات مسلسل بڑھ رہے ہیں ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے وہ ہوش ربا معاوضہ لیکے بھی کسی کو انصاف نہیں دلا سکتے ہیں۔ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہماری عدالتی تاریخ میں اگر کسی کی وراثت میں انصاف یے تو وہ غیر مسلم ہے۔وزیروں کے مراعات بڑھاۓ جارہے ہیں ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ استاذ خزانے پر بوجھ ہے۔اس قوم کے مربی یقینا خزانے پہ بوجھ ہے کیونکہ خود قوم کو پتہ نہیں کہ انسانیت کے ترازو میں اس کو تولا جاۓ تو اس کاوزن کیا ہے۔
آج استاذ کو محسوس کرنا چاہیے کہ اس کے ہاتھ صرف تربیت رہ گئی اس کے ہاتھ سے تربیت کاڈنڈا بھی چھینے کی کوشش کی جارہی ہے۔بچے کی سرزنش کرنے پر اس کو سزا دی جاتی ہے لیکن کسی مخلص استاذ کو کبھی اس کاسامنا کرنا نہ پڑے گا اگر تربیت کے مرحلے میں اس کو بچے کو سزا بھی دینی ہو تو دے خود اپنی سزا برداشت کرے لیکن قوم کی قطار میں ایک نااہل فرد کو لاکھڑا نہ کرے۔۔بڑے بڑے بپلک سکولوں اور سرکاری سکولوں کے بچوں کی تربیت میں زمین آسمان کا فرق ہے یہ امیرزادے جو پبلک سکولوں میں پڑھتے ہیں وہ استاذ کو ایک راج مزدور کی طرح لیتے ہیں اور خاص کر ٹیوشن ہڑھانے والے کو تو عام ہی سمجھتے ہیں۔اس لیے المیہ ہے کہ ہم بے تربیت ہیں استاذ کو خود صداقت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔خود امین ہو خود محنتی اور قابل تعریف ہو اور انسانیت کے سارے اوصاف سے متاصف ہو تب جاکے وہ تربیت دینے کے قابل ہوسکتا ہے ورنہ تو وہ اپنے اصل مقصد سے دور رہے گا۔۔آج کل استاذ کی سخت ضرورت ہے پڑھانے کے لیے نہیں تربیت دینے اور انسانیت سیکھانے کے لیے۔۔آج معاشرے میں انسانوں کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔استاذ کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے وہ جہالت کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔۔۔لکھنا پڑھنا سیکھنا تعلیم نہیں نری جہالت یے۔اگر انسانیت کا درس نہ لے تو جاہل ہی رہے گا ۔۔۔۔اس لیے استاذ اصل جہالت کے خلاف لڑے جو آج کی ضرورت یے
تازہ ترین
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- ہومنوجوان عالم دین قاضی ولی الرحمان انصاری کا اعزاز
- ہومریجنل پولیس آفیسر ملاکنڈ کا دورہ لوئر چترال
- ہوم5 تاریخ سے تمام پرائمری اساتذہ جنہوں نے حالیہ دھرنے کےلئے سکول بند کئے تھے، ان اساتذہ کو فوراََ معطل کرکے رپورٹ ڈائریکٹریٹ طلب