چترال (نمائندہ چترال میل) این اے ون چترال سے جمعیت علمائے اسلام کے نامزد امیدوار سینیٹر طلحہ محمود نے کہاہے کہ اگر چترال کے عوام نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تو انشاء اللہ چترال کا نقشہ تبدیل ہوگا جبکہ چترال کے عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بہت سارے سیاسی چیلے ان کے انتظارمیں ہیں لیکن فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے اور خلوص، محنت، محبت اور اجتماعی کوشش کے ساتھ اللہ کی نصرت کا طالب ہوکرکام کیا جائے تو ارض پاکستان پر ایک نیا چترال نمودار ہوگا۔ منگل کے روز چترال پہنچنے کے فوری بعد پہلا انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چترال کے عوام نے لواری ٹنل سے لے کر چترال شہر تک جس والہانہ انداز میں ان کا استقبال کیا، وہ ان میں قیادت کی تبدیلی کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے جوکہ قیام پاکستان کے بعد 77سالوں سے پسماندگی سے دوچار ہیں جبکہ اللہ نے اس علاقے کو رعنائی اور وسائل سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور اس کے رہنے والے تعلیم،یافتہ مہذب اور محنتی ہیں لیکن کمی اگر کسی چیز کی ہے تو وہ صالح، دیانت دار اور وژن رکھنے والی قیادت کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ترقی کے نام پر ملنے والی فنڈز پوری ایماندار ی اور سچائی کے ساتھ لگے ہوتے تو چترال میں یوں بدحالی نہ ہوتی، اپر اور لویر چترال کے اضلاع میں سڑکوں کی حالت یوں بد تریں نہ ہوتے اور نہ تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لئے چترالی عوام کو پشاور، کراچی اور دوسرے شہروں کا رخ کرنا پڑتا جبکہ ان سہولیات کی فراہمی ریاست کا کام ہوتا ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہاکہ وہ 2006ء سے پارلیمنٹ سے وابستہ ہیں لیکن ان اٹھارہ سالوں انہوں نے کبھی یہ معلوم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ ایک سینیٹر کی ماہانہ تنخواہ کتنی ہوتی ہے اور انہیں کون سے مراعات ملتی ہیں اور اس طویل عرصے کے دوران انہوں نے ایک پائی بھی نہ تو تنخواہ کی مدمیں وصول کیا ہے اورنہ ہی دوسرے مالی مراعات لی ہیں اور 2008ء میں وزیر اعظم کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر جانے پر شاہی خاندان سے ملنے والی تخائف کو انہیں واپس آکر توشہ خانہ میں جمع کرادیا۔ انہوں نے ملک کے سیاسی بازیگروں کو شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ انہوں نے ملک کے 25کروڑ عوام کو اپنا خاندان کبھی نہیں سمجھا اور صرف اپنی برادری تک اپنے آپ کومحدودرکھا اور اپنی خاندان کے بارے میں ہی سوچا جس کے نتیجے میں ملک کا جو حال ہواہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہاکہ چترال کے عوام کو اپنی سڑکوں کی تعمیر اور نوجوانوں کا روزگار دلوانے اور علاقے کی ترقی کے لئے ایک نقطے پر اکھٹا ہونے کی ضرورت ہے اور اس بات کو سامنے رکھ کر ووٹ کا استعمال کرنا ہے کہ یہ بھی شہادت ہے اور کسی کو ووٹ دینے کا مطلب ان کی ایمانداری، اچھے کردارکا مالک ہونے اور باصلاحیت ہونے کی گواہی دینا ہے لیکن یہ ووٹ اگر برادری، قومیت، علاقائیت اور ذاتی مفاد کو سامنے رکھ کر دی جائے تو اس کا نہایت بھیانک نتیجہ برامدہوگا جس کا خمیازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود نے چھوٹے چھوٹے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کے حوالے سے کہاکہ وہ پہلے سے ہی رفاہ عامہ کا کام کررہے ہیں اور ملک سے باہر فلسطین سے لے کر مراکش اور افریقہ تک ان کی سرگرمیاں جاری ہیں جہاں وہ الیکشن بھی لڑ نہیں سکتا۔ انہوں نے کہاکہ بڑی بڑے ترقیاتی پراجیکٹوں کو چترال لانے کے لئے وہ اسلام آباد والوں کے خلق سے چھین کر لانے کا گر اور ہمت رکھتے ہیں اور گزشتہ اٹھارہ سالوں میں پارلیمنٹ میں انہوں نے یہ ساری طریقے سیکھ لئے ہیں۔
اس سے قبل جے یو آئی کے مقامی رہنماؤں مولانا عبدالرحمن، حافظ انعام میمن، مفتی ضمیر، مولانا فیض محمد مقصود اور دوسروں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سینیٹر طلحہ محمود پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ چترالی عوام کی خدمت کے لئے چترال سے انتخاب لڑنے کے لئے ان کی درخواست قبول کی ہے۔
منگل کے روز سینیٹر طلحہ محمود اور ان کے بیٹے قاسم بن طلحہ محمود کو لواری ٹنل سے سینکڑوں گاڑیوں کی جلوس میں چترال لایا گیا جبکہ عشریت، میرکھنی، دروش، ایون، بروز، چمرکھون اور دوسرے مقامات پر مقامی عوام نے بڑی تعداد میں ا کا استقبال کیا۔
جلسہ عام کے بعد سینیٹر طلحہ محمود نے مقامی ہوٹل میں پارٹی کی الیکشن آفس کا افتتاح کیا۔