داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔توقعات کی اڑان
سوشل میڈیا کی مثال آندھی اور طوفان کی طرح ہے اس کا رخ یا ٹرینڈ جس طرف موڑ دیا جائے اُسی طرف اڑان بھر تا ہے اور اس کی اڑان بہت خطرناک ہوتی ہے اگر کسی شخصیت سے توقعات وابستہ کی جائیں تو سوشل میڈیا دو دھا ری تلوار کی طرح وار کرتا ہے اگر توقعات پوری ہو گئیں تو مقا بلے پر آنے والا گھائل ہوگا توقعات پوری نہ ہوئیں تو جس شخصیت کو سر پر اٹھا یا گیا اُس کی ساکھ بری طرح متا ثر ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی کو منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہے گا نئے چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے حلف اٹھا تے ہی توقعات کی ہوائیں اڑائی گئی ہیں یہ ایسی توقعات ہیں جو اکیلے ایک شخص کے کرنے کے کام نہیں ان توقعات پر پورا اتر نے کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت ہے اکیسویں صدی میں عدل فاروقی کا نمونہ پیش کرنے کے لئے تین طبقوں کا یکجا ہونا بیحد ضروری ہے اور مو جودہ حالات میں نیا چیف جسٹس چار طبقوں کو یکجا نہیں کر سکیگا پہلا طبقہ جج کی کر سی پر بیٹھنے والے لو گوں کا ہے وطن عزیز پا کستان میں قاضی شُریح ؓ کے معیار پر پورا اترنے والے کم و بیش 100ججوں کی ضرورت ہے جو اعلیٰ عدلیہ کے منا صب جلیلہ سنبھا ل کر چیف جسٹس کا ساتھ دینے والے ہوں، دوسرا طبقہ مدعی اور مد عا علیہ کا ہے دونوں فریق سچائی کے علم بردار ہوں دوسرے کا حق مار نے کے لئے عدالت، جج اور قاضی کے کندھوں پر بندوق رکھنے والے نہ ہوں اللہ تعالیٰ سے ڈر نے والے ہوں، پیشہ ور مقدمہ باز نہ ہوں اگر ہم اللہ تعا لیٰ کو حا ضر ونا ضر جان کر سوچیں تو اس نتیجے پر پہنچینگے کہ مقدمے کے دونوں فریق جھوٹے ہوتے ہیں دونوں ظلم کرنے کی نیت سے مقدمہ بازی میں مال، جا ن اور وقت لگا تے ہیں دونوں وکلا ء کی خد مات حا صل کر کے حیلے بہا نے گھڑ لیتے ہیں اور جج کو الٹی پٹی پڑھا نے میں کا میاب ہو نے کی کو شش کر تے ہیں مقدمہ باز کی راستی اور خدا ترسی نا پید ہے دوربین اور مائیکرو سکوپ کے ذریعے بھی تلا ش نہیں کی جا سکتی تیسرا طبقہ گواہی اور شہا دت دینے والا ہے اس طبقے پر مکمل طور پر دھوکہ بازوں اور جھوٹی قسمیں کھا نے والوں کا قبضہ ہے ما تحت عدلیہ سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک گواہوں کے جھوٹے ہونے کی لا کھوں نظیر یں ملتی ہیں بعض نظا ئر کو باقاعدہ لطائف کی طرح تفنن طبع کے لئے بھی دہرایا جا تا ہے گویا چیف جسٹس کے چاروں طرف اندھیرا ہے آگے پیچھے، اوپر نیچے، دائیں بائیں کسی بھی سمت سے روشنی کی رمق آتی ہوئی دکھا ئی نہیں دیتی ان حالات میں ایک شخصیت کے ساتھ بڑی توقعات وابستہ کر کے ان توقعات کو آسما نوں کی سیر کرانا قرین قیاس ہر گز نہیں گذشتہ 40یا 45سالوں سے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد ستاون ہزار بتائی جا تی ہے ہائی کورٹوں میں بھی تقریباً یہی حالت ہے ہائی پرو فائل فوجداری مقدمات کئی سالوں سے زیرالتوا ہیں، میراث کے مقدمات 45سالوں سے زیر التوا ہیں یا دش بخیر فوجی گورنر جنرل فضل حق نے کا لاش اقلیت کے عما ئدین سے ملا قات کی آنجہانی بشار اخان نا خواندہ آدمی تھے ڈسٹرکٹ کونسل کے اقلیتی ممبر تھے انہوں نے گورنر سے درخواست کی کہ مجھے جج لگاؤ، فضل حق نے پو چھا تعلیم کتنی ہے؟بشا را خان نے کہا تعلیم کچھ بھی نہیں انگوٹھا چاپ ان پڑھ ہوں فضل حق نے پو چھا پھر کیسے جج بنو گے؟ بشارا خان نے کہا جیسا آپ کا جج ہے میں بھی ایسا جج بنوں گا تمہار اجج فیصلہ نہیں دیتا تاریخ دیتا ہے میں بھی تاریخ دونگا کشمیر میں کھڑک سنگھ کا قصہ مشہور ہے وہ بھی ان پڑھ تھا مہا راجہ کشمیر کا رشتہ دار تھا، اس نے سفارش کی وائسرائے ہند نے اس کو مشرقی پنجاب میں جج لگا دیا وہ ملزم کو وکیل اور گواہوں سمیت سزائے مو ت دیتا تھا اس لئے پنجاب میں مقولہ مشہور ہوا کہ ”کھڑک سنگھ کے کھڑکتے ہی کھڑکتی ہیں کھڑ کیاں“انگریزی میں جلد بازی میں کئے گئے فیصلوں کے لئے مقولہ ہے کہ جلد بازی کا فیصلہ انصاف کا قتل ہے اس کے مقا بلے میں مقدمہ 40سال لٹکا ئے رکھنے کے لئے انگریزوں کا مقولہ ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے پاکستان کا مو جودہ عدالتی منظر نا مہ انصاف سے انکار کے زمرے میں آتا ہے ایک مشکل یہ بھی ہے کہ کوئی بیوہ، یتیم، مسکین،معذور یا غریب شہری وکیل کے بغیر عدالت میں جا کر اپنی عرض پیش نہیں کر سکتا مظلوم کے لئے کوئی دروازہ کوئی کھڑکی دستیاب نہیں، اس لئے بار دگر عرض ہے کہ چیف جسٹس کی ذات گرامی سے بے جا توقعات وابستہ نہ کریں البتہ خیر اور بھلائی کی تھوڑی اُمید رکھیں اس میں کوئی ہرج نہیں۔