دادبیداد۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی۔۔پشاورکابجٹ

Print Friendly, PDF & Email

دادبیداد۔۔ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی۔۔پشاورکابجٹ
کیپٹل میٹرو پولیٹن گورنمنٹ پشاور کا دوسرا بجٹ پیش کیا گیا ہے بجٹ پیش کرتے ہوئے مئیرحاجی زبیر علی نے بجاطورپرشکوہ کیا کہ انتخابات کے بعد مقامی حکومتوں کو اختیارات اورفنڈدینے میں روزبہ فردا کرکے لیت ولعل سے کام لیا گیا لوکل گورنمنٹ کے قانون میں ترمیم کرکے منتخب نمائندوں کے اختیارات بیوروکریسی کی تحویل میں دے دئیے گئے کسی سیاستدان کی ہربات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتااس کے باوجود مئیر پشاور کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کی گنجائش موجود ہے حکومت نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے بعد بنیادی اداروں اور کونسلوں کو آنہ پائی اور دھیلے کافنڈجاری نہیں کیا سوال یقینااٹھتاہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟انتخابات کے بعد یہ تیسرابجٹ ہونا چاہیئے تھا لیکن اختیارات کی کھینچاتانی میں 3سال بیت گئے یہ بات بارباردہرانے کے قابل ہے اور باربار دہرائی جاتی ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کو صرف مارشل لاء کے ادوارمیں اختیارات ملے،سیاسی،جمہوری اور منتخب حکومتوں نے کبھی لوکل گورنمنٹ کواختیارات نہیں دئیے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سینیٹرز،ایم این اے اورایم پی اے جتنے بھی آتے ہیں وہ ویلیج کونسل،نیبرہڈ کونسل کے چیئرمین کو اپنا دشمن یاکم از کم حریف اور رقیب سمجھتے ہیں ضلع کونسل اور یونین کونسل اس وجہ سے ختم کئے گئے،جب میڈیا محدود تھاہم لوگ کسی بڑے شہرکے مشہوربک سٹال پرجاکر واشنگٹن،لندن،پیرس،ٹوکیو اور بیجنگ کے انگریزی اخبارات لیتے تھے اب ورلڈ وائڈ ویب کی مدد سے دنیا بھر کے اخبارات ہمارے گھروں میں دستیاب ہیں ان اخبارات میں عوامی مسائل،عوامی خدمات اور سرکاری منصوبوں کے حوالے سے وفاقی حکومت،وزیراعظم،وزیرخزانہ یاکابینہ کا ذکر کبھی نہیں آتا،ہرکام لوکل گورنمنٹ کرتی ہے ہرمنصوبے میں لوکل گورنمنٹ کانام آتاہے۔برطانیہ،چین،جاپان اور کوریا میں بڑے شہروں کے میٹروپولیٹن کارپوریشن اپنے کارخانے چلاتے ہیں ان کے سمندری جہازہوتے ہیں ان کی اپنی فضائی جہازران کمپنیاں ہوتی ہیں،عدالتیں بھی مقامی حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں،سکول،کالج،ہسپتال بھی مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں،عوام کے تمام مسائل کاحل لوکل گورنمنٹ کے پاس ہوتا ہے اس لئے میڈیا میں وفاقی حکومت کا کوئی ذکر نہیں ہوتا،وزیراعظم،اراکین پارلیمنٹ اورکابینہ کانام کوئی نہیں لیتا۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے الٹی گنگا بہتی ہے لوکل گورنمنٹ کو پھلتا پھولتادیکھنے کے لئے ہم کو مارشل لاء کا انتظارکرنا پڑتا ہے۔منتخب حکومت سے کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جاتی کوئی اچھی اُمیدوابستہ نہیں کی جاتی۔سابقہ اسمبلیوں کے ٹوٹتے اور نئی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہونے سے پہلے مقامی حکومتوں کے لئے فضاسازگار ہوگئی ہے جن حلقوں کے مئیر اور چیئرمین استعفیٰ دینے پرغورکررہے تھے وہ اپنے فیصلے واپس لے رہے ہیں جن حلقوں کے مئیر اور چیئرمین بیرون ملک چلے گئے تھے وہ بھی واپس آنے پر سوچ بچار کررہے ہیں پشاور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے بجٹ کا حجم5ارب 14کروڑ روپے ہے نیبرہڈکونسل کو27لاکھ، اقلیتی ارکان کو10لاکھ فی ممبر،کسان کونسلر کو10لاکھ اور خاتون کونسلرکو5لاکھ روپے ملینگے فنڈ کا50فیصد ترقیاتی سکیموں پرجبکہ بقیہ 50فیصد فلاحی کاموں پر خرچ ہوگا،مستحق طلبا اور طالبات کو وظائف دئیے جائینگے،معذوروں کاخیال رکھا جائے گا نوجوانوں کوکھیلوں کی سہولیات دی جائینگی پشاورکابجٹ آنے کے بعد اُمید پیداہوگئی ہے کہ صوبے کے دوسرے کونسلوں کوبھی فنڈملینگے۔