دابیداد۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔قومی مزاج کا پوسٹ مارٹم

Print Friendly, PDF & Email

دابیداد۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔قومی مزاج کا پوسٹ مارٹم
ہرقوم کا مزاج الگ ہوتا ہے یورپ اور امریکہ کے لوگ جھوٹ نہیں بولتے یہ ان کے قومی مزاج کالازمی جزوہے ترک بے غیرت نہیں ہوتے یہ ان کے مزاج کاحصہ ہے۔چینی کسی کی اہانت یابے عزتی نہیں کرتے یہ ان کا قومی مزاج ہے،جاپانی وقت ضائع نہیں کرتے یہ ان کا قومی مزاج کہلاتاہے اور اپنی لمبی تاریخ رکھتاہے علوم بشریات کے ماہرین ایک عرصہ سے پاکستانیوں کے قومی مزاج کا کھوج لگارہے تھے۔نصف صدی کے تجربات کے بعد ماہرین اس نتیجے پرپہنچ گئے ہیں کہ پاکستانی قوم کا مزاج اذیت پسندی اورجرائم پرستی ہے پاکستانی قوم کے زوال کی بڑی وجہ ان کا یہ مزاج ہے اگریہ قوم اذیت پسند اور جرائم پرست نہ ہوتی تو اس قوم کی تاریخ مختلف ہوتی صرف مختلف نہ ہوتی بلکہ بہت ہی مختلف ہوتی۔مثلاًآپ جاپانی میڈیا کا جائزہ لے لیں تومعلوم ہوگا کہ جاپانی قوم سنجیدہ گفتگو کوپسند کرتی ہے،چینی قوم علمی مباحثوں کی دلدادہ ہے پاکستانی قوم نہ سنجیدہ گفتگو کوپسند کرتی ہے نہ علمی مباحثوں کوپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے اس کے مقابلے میں پاکستانی میڈیا میں غیرسنجیدہ گفتگو،سوقیانہ مباحثہ اور بچگانہ بات چیت کو سب سے زیادہ سامعین میسر آتے ہیں اگر اعلان کیا جائے کہ مابعد جدید یت پربات ہورہی ہے تو سامعین نہیں ملینگے اس کے مقابلے میں اگر اشتہار دیا جائے کہ کسی پارٹی،کسی مذہب یاکسی مسلک کے خلاف گفتگو ہوگی تو لوگ ٹکٹ لیکر آجائینگے،ہال بھرجائے گا مقرر بھی دل کی بھڑاس نکالے گا،سامعین بھی دل کھول کرداد دینگے اور خوب تالیاں بجائینگے۔چین اور جاپان کے اخباروں میں ذخیرہ اندوزی،سمگلنگ اورملاوٹ کی خبر آپ کو اندرونی صفحات کی آخری لائن میں ایک کالمی سرخی کے ساتھ ملے گی،پاکستان میں ایسی خبر6کالمی اور7کالمی شہ سرخیوں کے ساتھ صفحہ اول پرشائع ہوتی ہے وجہ یہ ہے کہ اخبار کا قاری ایسی خبروں کو پسند کرتا ہے،یہی حال چوری،ڈکیتی اور دیگر جرائم کی خبروں کا ہے۔جاپان اور چین میں انتخابات ہوتے ہیں تو سنجیدہ اور خاموش اُمیدوار کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں پاکستان میں سنجیدہ اور خاموش ہونا عیب سمجھا جاتا ہے یہاں لوگ اُس کو ووٹ دیتے ہیں جو سب سے اونچی آواز میں شورمچاتا ہو اور فضول یا بے معنی باتیں کرتا ہو کیونکہ قوم کا مزاج اذیت پسندانہ ہے یہ قوم اذیت کو پسند کرتی ہے سنجیدگی کو پسند نہیں کرتی۔اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہمارے ہاں انتخابی مہم میں قومی مسائل پربات نہیں ہوتی مختلف لیڈروں کی عیب جوئی پربات ہوتی ہے ذاتی دشمنی کو موضوع بنایا جاتا ہے،ذاتیات کو انتخابی مسئلہ قرار دیا جاتا ہے یہ ہمارے قومی مزاج کالازمی حصہ بن چکا ہے اس وجہ سے ہربار انتخابات میں پُرانی دشمنی آگے بڑھائی جاتی ہے اور نئی دشمنی پیدا کی جاتی ہے یہ ہمارے قومی مزاج کی سب سے بڑی کمزوری ہے اس وجہ سے ہماری سیاست ناکام ہوگئی ہے معیشت ناکامی سے دوچار ہے جمہوریت ناکامی کامنہ دیکھ رہی ہے اور سماجی نظام ٹوٹ پھوٹ کے عمل کاشکار ہوچکا ہے۔قوی مزاج کا یہ پوسٹ مارٹم ہمیں آگے بڑھنے کا ایک صاف راستہ دکھاتا ہے راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذہنیت کوبدل دیں،دماغ کا فتور نکال دیں،برائی کوپسند کرنے کے بجائے نیکی اور بھلائی کو پسند کرنے والے بن جائیں ذاتیات کی جگہ اصولوں پرسوچنے اور بولنے والے بن جائیں۔جرائم کی جگہ اچھے کاموں کو پسند کرے والے بن جائیں تو ہماری قوم آگے بڑھے گی اور ملک ترقی کرے گا۔