دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔”ایک مثالی پرنسپل کی قابل تقلید کاوشیں“۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔”ایک مثالی پرنسپل کی قابل تقلید کاوشیں“۔۔۔۔۔گورنمنٹ سنٹینیل ماڈل ہا?ی سکول چترال پوریچترال کی مادر علمی ہے یہ چترال میں سب سے پرانا تعلیمی ادارہ ہے جس نے چترال کو نامی گرامی فرزند د?یے جنہوں نے چترال میں چترال سے باہر اور ملک سے باہر چترال کا نام روشن کیا۔اس ادارے میں نامی گرامی اساتذہ اور ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز نے خدمات انجام دی لیکن تاریخ کے دامن میں کسی کی بھی مثالی لیڈرشپ محفوظ نہیں۔تاریخ ایک دوپرنسپلوں کانام نام لیتی ہے جنہوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی۔اگر مختلف ادوار کے پرنسپلز اس کو مثالی بنانے میں اپنا کردار اداکرتے تو یہ مادر علمی بیمثال ہو جاتی اور اس کے اردگرد کسی سرکاری یا پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا نام نہ لیا جاتا جس طرح آج لوگ مختلف غیر سرکاری اداروں کا نام فخر سے لیتے ہیں اس کا نام بھی فخر سے لیا جاتا اور اس میں پڑھنے والوں اور پڑھانے والوں کو اس پہ فخر ہوتا۔۔میں خود اس ادارے کا حصہ رہا مگر واں رہتے ہو? افسوس کے سوا کچھ نہ کر سکا میری موجودگی میں پرنسپل ہا?س پر ڈی ای او فیمل نے قبضہ کیا پرنسپل ٹھس سے مس نہ ہوا۔میری موجودگی میں کامرس کالج کے پرنسپل نے چمن زار کے اردگرد گرد موٹی دیوار کھڑی کی پرنسپل ٹھس سے مس نہیں ہوا۔سکول میں لرننگ، صفا?ی ستھرا?ی، حاضری باقاعدگی وغیرہ پر اگر پرنسپل سے بات کی جاتی تو ان کے کان بہرے ہو جاتے۔۔یہ حسرت لیے ہم اس ادارے سے ٹرانسفر ہوگ?۔ہم سوچتے کاش کو?ی اس کو ماڈل سکول بنا?۔۔ہم خواب دیکھتے کہ کاش کو?ی اس کی اہمیت کو سمجھے۔ہم نے جب ڈسٹرکٹ سپورٹس گالہ میں چھ مقابلے جیت کر ٹرافیاں پرنسپل کی میز پہ رکھے تو اس نے یہ نہیں کہا کہ جی تمہاری محنت کو داد دیتا ہوں۔لیکن شاید رب نے ہماری یا کسی اور کی دعا سن لی کہ آج کل اس ادارے کو ایک بے مثال پرنسپل فضل سبحان کی صورت میں ملا ہے۔۔فضل سبحان صاحب سے میری ملاقات آج سے ک? سال پہلے بمبوریت کے ہائی سکول میں ہو?ی میں اس سکول میں تھا آپ کسی انکوا?ری کے سلسلے میں چترال آ? تھے۔پھر فضل سبحان صاحب چترال آتے رہے لیکن اب اس ادارے کے لیے اللہ کی طرف سے گفٹ بن کیآ? ہیں۔فضل سبحان صاحب نومبر 1965 کو شبقدر ضلع چارسدہ میں ایوب خان صاحب کے ہاں پیدا ہو? ابتدا?ی تعلیم گا?ں کے سکول سے حاصل کی میٹرک میں اپنے سکول میں پوزیشن لی پھر بی اے ارنرز اور پشاور یونیورسٹی سے پاکستان سٹڈیز میں ایم ایس سی کیا۔یونیورسٹی میں لکچرر بنا پھر ایس ایس بنا ترقی کا سفر جاری رہا انیسویں گریڈ پر ڈپٹی ڈا?ریکٹر بنا پھر بیس گریڈ پہ صوبے کے ک? نامی گرامی سکولوں کا مثالی پرنسپل بنا۔آج کل گورنمنٹ سنٹینیل ہا?ی سکول کے پرنسپل ہیں۔اس مثالی معلم اورانتظامی ماہر اور پھر اس تاریخی تعلیمی ادارے کیبارے میں ہمیشہ سوچتا رہتا کہ اس ہستی کے ہوتے ہو? اس ادارے کے لیے ہمارے جو خواب تھے وہ پورے ہو جا?یں۔
یہاں تک کہ مجھے فضل سبحان صاحب کی محنت سرگرمیوں اور کاوشوں کے بارے میں آگاہی ہوئی اپنا خواب پورا ہوتے ہو? دیکھ کر اچھا لگا
سوچا کہ اپنے اس کمزور قلم سے ان خدمات کا ذکر کروں شاید اس نیک کام میں میرا بھی حصہ ہواور وہ یاد تازہ ہوں کہ کبھی ہم بھی اس سسٹم کا حصہ تھے۔سرکاری سکولوں پر تنقید اس لیے ہو رہا ہے کہ وہاں کام کا طلبا کا داخلے کا معیار نہیں جزا سزا نہیں ہوتی۔ایک استاد جان کھپا دے پرنسپل کے نزدیک اس کی کو?ی اہمیت نہیں ہوتی ایک استاد کچھ نہ کرے وہ بڑا لاڈلا ہوتا ہے یہی ان اداروں کی تباہی کی اصل وجہ ہے۔فضل سبحان صاحب ادارے میں خلوص اور جذبہ لے کے آ? ہیں پچھلے سال کی سا?نسی نما?ش میں جانے کا مجھے بھی شرف حاصل ہوا شاگرد اساتذہ نے میری بڑی حوصلہ افزا?ی کی یہاں تک کہ سٹیچ مجھے حوالہ کیاگیا مجھے محسوس ہوا کہ ماحول بدل رہاہے فضل سبحاں صاحب اپنے نوجوان رفقا? کار کو ساتھ لے کر ایک منزل کی طرف روان ہے میر اندازہ درست تھا کہ یہ ادارہ مثالی بنتا جا رہا ہے۔۔فضل سبحان صاحب نے آتے ہی پی ٹی سی کونسل کو فعال بنایا اس میں تعلیم یافتہ لوگوں معاشرے کے ذمہ دار لوگوں اور علمائیکرام کو شامل کیا ان کو ان بوٹ لیا ان سے کام لینا شروع کیا۔۔مذکورہ ادارے میں وسا?ل کی کمی نہیں بس ان کو برو? کار لانے کی دیر تھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق انہوں نے بڑی کلاسوں میں ملٹی میڈیا کلاسس شروع کی۔انہوں نے کلاسوں میں ڈیجیٹل بل سسٹم نصب کیا۔ استاذ گھنٹی بچنے سے پہلے کلاس سے نہیں نکل سکتا۔داخلی اور خارجی امتحانوں میں نقل کا سسٹم ختم کرنے کی پرخلوص کوشش کی اوروالدین کو بلا کر بچوں کے نتا?ج اور DMCs ان کے سامنے رکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔انہوں نیبچوں کو مختلف ہاوسس میں تقسیم کرکے ان میں نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں میں مقابلہ کرانا شروع کیاہے۔بچوں سے مختلف قومی اور بین القوامی دن مناتے ہیں۔سپورٹس ویکس اور ہفتہ نظم و ضبط مناتے ہیں۔کلاس رومز کی سجاوٹ کی ہے استاذ کے لییڈا?س اور pegion hole الماری بنا?ی ہے۔سا?نس لیپ اور کمپیوٹر لیب فعال بنایا ہے۔سٹوڈنٹ اف دی ا?ر اور ٹیچر اف دی ا?ر کے انعامات کا اجرا کیا ہے۔سکول میں فرسٹ ایڈ نظام کو فعال بنایا ہے ایمرجنسی کی صورت میں بچوں اور اساتذہ کا فورا علاج ہوتا ہے۔کلاس رومز ڈا?ری اور تعلیمی کلینڈر بنایا ہے۔اساتذہ کے لیے رخصت اتفاقیہ فارم بنایا ہے اس کے مطابق اگر کو?ی استاذ رخصت اتفاقیہ پہ جا? تو اس کی کلاسیں متاثر نہیں ہوں گی۔پر نسپل نے سکول کی چالیس دکانیں جوکیس پہ تھیں عدالت سے وازگزار کرائی۔اب کرایہ سکول فنڈ میں جمع ہورہا ہے۔ عنقریب سکول میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کاآغاز کررہا یے۔ بچے نیچرل سائنس اور سوشل سائنس کیساتھ ہنر بھی سیکھیں گے۔پرنسپل صاحب اپنی جیب سے سکول میں موجود نادار اور مستحق طلبا کی مسلسل مدد کررہے ہیں ان کی تعلیمی اخراجات اور نجی بنیادی ضروریات ان کے ہاں سے پوری ہورہے ہیں۔ پرنسپل صاحب کی جتنی تعریفیں کی جا? کم ہے ان سب کا ذکر اس لیے کیا جاتا ہے کہ کیا یہ ساری سرگرمیاں کرانا ممکن نہیں اگر ممکن ہیں تو دوسرے اداروں میں کیوں نہیں ہو رہیں کیا وقت گزارنا ڈیوٹی کہلاتا ہے۔اس ادارے کی قسمت میں ایسا پرنسپل پہلے کیوں نہیں آیا؟۔میری 32 سال کی سروس میں کسی ایسے پرنسپل کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق نہیں ہوا۔کہ کاش کو? ہمارے خلوص اور جانفشانی کو ایک ادھ داد سے نوازتے۔۔۔سنیٹینیل ماڈل سکول کا پورا سٹاف خوش قسمت ہے ان کوکام اور محنت میں مزا آنا چاہیے۔۔۔۔۔