داد بیدا د۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔مُر غا اور آدمی
ایک خبر نظر سے گذری مر غوں کی لڑا ئی پر آدمیوں میں تکرا ر ہوئی دو آدمی ما رے گئے تیسرا زخمی ہوا، البتہ مر غا صحت مند اور تندرست ہے اُس کو کسی قسم کی چوٹ نہیں آئی، دوسری خبر بھی یہی ہے کہ 65سالہ بزر گ کو غصہ آیا اُس نے بندوق اٹھا ئی اپنے اکلوتے بیٹے، بہو، دو پو توں اور ایک پوتی کو موت کے گھا ٹ اتارا، 4سالہ پو تا بچ گیا تو اُسے مو ٹر سائیکل پر اپنے ساتھ لیکر خرا ماں خرا ماں فرار ہوا عینی شا ہدین اور قریبی پڑوسیوں نے اخبار والوں کو بتا یا کہ دا دا کو 4سالہ پو تے سے بہت محبت ہے اس لئے اس کو زندہ اپنے ساتھ لے گیا د و دنوں کے چار اخبارات میں اس نو عیت کی 10خبریں ہیں جن میں آدمی کو جا نور، درندے اور بھیڑیے کے روپ میں دکھا یا گیا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان وارداتوں میں کوئی ما ئیکل، رام لا ل، گور سنگھ کے ملو ث ہونے کا ذکر نہیں جو لوگ ملوث دکھا ئے گئے ہیں ان کے نا موں میں دین، حق اور محمد کے مبار ک متبرک اور مقدس الفاظ آتے ہیں یہ خبریں بھا رت، اسرائیل اور امریکہ سے نہیں آتی ہیں بلکہ اسلا م کے نا م پر مسلما نوں کے لئے بننے والے ملک پا کستان سے آتی ہیں جہاں پا نچ وقتوں کی نما زوں کے لئے با قاعدہ اذان ہو تی ہے جہاں اسلا م کو امن اور سلا متی کا دین کہا جا تا ہے، جہاں صبر اور بر داشت کو ثواب اور نجا ت کا ذریعہ کہا جا تا ہے ایسے واقعات پر ہم کہتے ہیں کہ خون سفید ہو گیا، ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے ہم یہ بھی کہتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ مرنے والوں کو ہزاروں اشکبار آنکھوں کے سامنے سپر د خا ک کیا گیا ہم یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایک ساتھ کئی جنا زے اُٹھنے پر کہرام مچ گیا لیکن دوسرے دن ہم ساری باتیں بھو ل جا تے ہیں صلح صفا ئی کی فضیلت بیان کر تے ہیں اور قا تلوں کی حما یت میں جر گے بلا نے پرا پنی توا نائیاں خر چ کر تے ہیں اس طرح زور زبر دستی اور جبرو ظلم کا تما شا جا ری رہتا ہے ہمارے معا شرے میں جرا ئم اتنے زیا دہ کیوں ہیں؟ اس کے جوا ب میں ما ہرین سما جیا ت اور ما ہرین نفسیات دو مو ٹی موٹی وجو ہا ت کا ذکر کر تے ہیں پہلی وجہ بتا تے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اخلا قی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں ہے انسا نی جا ن کو قتل کر نے کی برائی بیان نہیں ہو تی بلکہ قاتل کو بہادر، دلیر ار نڈر مانا جا تا ہے، پورے گاوں میں بیوہ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھر نے والا ایک بھی نہیں ملتا، قا تل اور مجر م کے ساتھ ہمدردی کرنے والے گروہوں اور جتھوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں اور جر م کو چھپا نے کے لئے ہزاروں حیلے بہا نے ڈھونڈ نکا لتے ہیں تعلیمی اداروں کے نصاب میں اخلا قیات کا کوئی باب نہیں ہے عبادت خا نوں اور جنا زہ گاہوں میں جو خطبے دیے جا تے ہیں ان میں ووٹ، سیا ست، نما ئیندگی اور کر سی کے مو ضو عات پر زور دیا جا تا ہے اس وجہ سے اخلا قی نظا م در ہم بر ہم ہو چکا ہے ما ہرین نفسیا ت جا پا ن کی مثال دیتے ہیں جہاں ایک پر ندے کی جا ن بچا نے کے لئے کرین اور ہیلی کا پٹر سے مد د لی جا تی ہے کیونکہ وہاں اخلا قیات کو تعلیمی نصا ب میں جگہ دی گئی ہے ما ہرین نفسیات اس در ندگی کی دوسری وجہ بتا تے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارا نظام عدل نا کا رہ ہو چکا ہے سفا ک قا تل کو سزا دینے کا کوئی قا نون نہیں اس کو سزا سے بچا نے کے سینکڑوں قوانین ہیں اگر قاتل کو وار دات کے دوسرے یا تیسرے دن سزائے مو ت دی جا ئے تو معا شرے سے سفا کیت اور در ندگی ختم ہو جا ئیگی مجر م کو سزا سے بچا نے کا نتیجہ یہ ہے کہ دو آدمی مر غوں کی لڑا ئی پر قتل ہو ئے مر غا تندرست اور صحت مند و سلا مت ہے اس لئے نظا م تعلیم اور فوجداری قوانین میں دور رس اصلا حا ت کی اشد ضرورت ہے۔