داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔پبلک لائبریری
پبلک لائبریری میں بیٹھے ہوئے نو جوانوں کو بتا یا جا ئے کہ اس جگہ کا نا م کتب خا نہ ہے تو وہ حیراں رہ جائینگے کیونکہ لائبریری کا انگریزی لفظ کتب خا نہ کی نسبت آسان لگتا ہے اور جب اس کا تلفظ ”لائے بیری“ کیا جا تا ہے تو مزید آسان لگتا ہے یہ بات بہت کم لو گوں کو معلوم ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے محکمہ اعلیٰ تعلیم، قدیم دستا ویزات اور کتب خا نوں کے محکمے کو وسائل مہیا کر کے صوبے کے 17اضلا ع میں 18پبلک لائبریریاں قائم کی ہیں، ضلع ہری پور میں دو لائبریریاں ہیں ایک ہری پور میں ہے دوسری غا زی میں، ان لائبریریوں کی عما رتوں میں محا فظ خا نہ، دفاتر، مطا لعہ گاہ اور کتب خا نے کے ساتھ آڈ یٹو رئیم اور محققین کے لئے رہا ئش گا ہوں کی سہو لیات بھی مہیا کی گئی ہیں عما رتیں جدید سہو لیات سے آراستہ ہیں فر نیچر بھی جدید معیار کے مطا بق ہے اکیسویں صدی کی ضروریات کے مطا بق کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے ذریعے دنیا کی لائبریوں سے اہم کتا بوں تک رسائی کی سہو لت بھی دی گئی ہے انگریزی میں اس سہو لت کو ڈیجٹیل ریسورس کہا جا تا ہے اس سہو لت کے ذریعے محقق اور طا لب علم انٹر نیٹ پر جا کر لا کھوں کتا بوں کو کھول سکتا ہے پڑھ سکتا ہے حوا لہ دے سکتا ہے حا لا نکہ لائبریری کی الما ریوں میں بمشکل 20ہزار کتا بیں مل سکتی ہیں صوبے کے طول و عرض میں پبلک لائبریریوں کا جا ل بچھا نا صو بائی حکومت کا اہم اور مفید منصو بہ تھا اس کا آغا ز 2004میں ہائر ایجو کیشن کمیشن کے چیئر میں ڈاکٹر عطا ء الرحمن کی تجویز پر ہوا، خیبر پختونخوا کی حکومت نے سبقت لیکرایک امبریلہ سکیم کے تحت بجٹ فراہم کر کے منصو بے پر کا م شروع کرا یا، ڈاکٹر ظاہر اللہ ڈائریکٹر ار کایوز اور شاہ مراد خا ن چیف لائبریرین تھے دس سال کے عرصے میں پبلک لائبریریاں فعال ہو گئیں مگر یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا، نمو نے کے طور پر اگر چترال لوئیر میں 10سال پہلے قائم ہو نے والی پبلک لائبریری کی مثال لی جا ئے تو پبلک لائبریری کی افادیت کا اندازہ ہو جا ئے گا یہ لائبریری گورنمنٹ ڈگر ی کا لج چترال اور فرنٹیر کور پبلک سکول کے قریب ہائیر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ کی زمین پر تعمیر کی گئی ہے اس کے آڈیٹوریم میں 200مہما نوں کے لئیے بیٹھنے کی گنجا ئش ہے کسی سمینار، مذاکرہ، ور کشاپ یا کانفرنس کی بیک وقت دوسے زیا دہ اجلا س الگ الگ جگہوں پر منعقد ہو رہے ہوں ایسے اجلا سوں کے لئے کھلی اور بند گیلریاں مو جو د ہیں جہاں کر سیاں لگوائی جا سکتی ہیں چائے اور کھا نے کے وقفے کے لئے لا ن میں گنجا ئش رکھی گئی ہے لائبریری کے سامنے کا لج کا فٹ بال گراونڈ ہے جس کے ایک طرف 100گاڑیاں کھڑی کی جا سکتی ہیں لائبریرین زاہد اللہ خان کے مطا بق لائبریری میں ہرروز 800سے زیا دہ افراد مطالعہ اور ریسرچ کے لئے آتے ہیں، مستقل ممبروں کی تعداد 1100ہے جبکہ لائبریری میں کتا بوں کی تعداد 12000سے اوپر ہے ڈائریکٹر آر کائیوز میڈم راحیلہ حفیظ تاریخی دستا ویزات کی محفوظ شدہ نقول اضلاع کی لائبریریوں کو دینا چاہتی ہیں اگر ان دستاویزات کی نقول فراہم کی گئیں تو محققین کو بہت فائدہ ہوگا علمی، سما جی اور ثقا فتی تنظیموں کے لئے ایسی لائبریریوں میں علمی پروگرام منعقد کرنے میں اس کی بھاری فیس رکا وٹ ہے اگر فیس کو معقول حد تک لایا جائے تو پبلک لائبریری کا ہال ہر ضلع کا علمی، سما جی اور ثقا فتی مر کز بن جا ئے گا۔