داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔پرندے اور انسان
شہری اور دیہی زند گی میں زمین و آسمان کا فرق ہے تا ہم ایک بات دونوں میں مشترک ہے، بازار کی معیشت اور مصروف زند گی نے دونوں جگہ اپنا سکہ جما یا ہوا ہے ہر گھر پر روپے پیسے کا سایہ ہے اور ہر کنبے پر دو چار پیسے جو ڑ نے کا سودا سما یا ہے یہ ایک سما جی، معا شی اور معاشرتی مسئلہ ہے جس کا سب کو سامنا ہے جس طرح پرندے انڈے دیتے ہیں ان کو سیتے ہیں، چوزے نکا لتے ہیں چوزوں کی سیوا کر تے ہیں ادھر ادھر سے کیڑے مکو ڑے چُن کر لا تے ہیں چوزوں کو کھلا تے ہیں ان کی پر ورش کا بو جھ اٹھا تے ہیں جب چوزوں کے پر نکل آتے ہیں تو وہ اڑا ن بھرتے ہیں پہلے نز دیکی درختوں کی شا خوں پر بیٹھتے ہیں، چہچہا تے ہیں پھر رفتہ رفتہ دور ہو تے جا تے ہیں یہاں تک ان کو ما ں کے گھونسلے کی خبر بھی نہیں ہو تی بازار کی معیشت نے آج کل کے دور میں انسا نوں کو بھی پرندوں کی طرح رزق کی تلا ش میں ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے ایک ہی گاوں، ایک ہی محلے کے لو گ ایک دوسرے کے لئے انجا ن بن چکے ہیں، ساتھ ساتھ دو بڑی کوٹھیاں با ہر سے نظر آتی ہیں اندر جا کر دیکھیں تو دونوں کو ٹھیوں میں الگ الگ پتھر رکھے ہوئے ہیں پتھر بہت قیمتی ہیں مگر ایک دوسرے کی دکھ درد نہیں سمجھ سکتے ہیں، ایک دوسرے کی خو شیوں میں شریک نہیں ہو سکتے، ان میں سے ایک کوٹھی میں میت ہو جا ئے تو 400کلو میٹر دور سے ان کے بھا ئی بہن اور رشتہ دار آکر پر سہ دیتے ہیں پڑوس میں واقع کوٹھی والوں کو پتہ بھی نہیں ہو تا وہ گلی میں بچھی ہوئی کر سیوں کو راستے میں رکا وٹ سمجھ کر نا ک بھوں چڑھا تے ہیں گاوں میں جو حالت ہے وہ بھی اس سے ملتی جلتی حا لت ہے اگر ایک گھر میں فوتید گی ہو تی ہے تو پتہ لگتا ہے کہ گھر میں ایک بوڑھا باپ تھا ایک بڑھیا اماں رہتی تھی ان میں سے ایک وفات پا گیا، بچے، پو تے، نوا سے، نو اسیاں شہروں میں روز گار پر ہیں ٹیلیفون پر واقعے کی اطلا ع دی گئی ہے وہ آکر فاتحہ پڑھینگے قبر پر جا کر حا ضری لگا ئینگے اگلے روز کہینگے مختصر چھٹی تھی جو ختم ہو گئی ما ں باپ میں سے جو رونے کے لئے زندہ بچا ہے اس کو تسلی دیتے ہیں کہ فکر نہ کرو، ہم ہر ما ہ ایزی پیسہ کے ذریعے خر چ کے پیسے بھیجینگے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی ان کی نظر میں محبت، اپنا ئیت، رشتہ نا طہ کوئی معنی نہیں رکھتا، بوڑھوں کو خد مت کی ضرورت نہیں ہو تی، گپ شپ اور گفتگو میں دل بہلا نے کی حا جت نہیں ہو تی، پیسہ مل جا ئے تو وہ آسانی سے اپنی مو ت کا انتظار کر سکتے ہیں بازار کی معیشت کا دارو مدار ہی روپے اور پیسے پر ہے، آج کا سب سے اہم مو ضوع محبت اور خد مت نہیں، ڈالر کا ریٹ ہے، تیل اور گیس کی قیمت ہے، بجلی کے بل میں آنے والے 10گنا سر چارج ہے اس لئے کنبے کے سارے افراد پیسہ کما نے میں لگے ہوئے ہیں، یہ 1979کا ذکر ہے سویت یو نین ٹوٹنے اور بکھر نے سے 10سال پہلے پشاور کے محقق ڈاکٹر محمد انور خان نے ما سکو، اور تاشقند کا سر کا ری دورہ کیا، دورہ مختصر تھا مگر اس دورے میں وہ تا شقند کے اندر پشاور سے تجا رت کی غرض سے جا کر 1919سے پہلے وہاں بس جا نے والے ہند کوان خاندانوں کے چند لو گوں سے ملا وہاں پوذیشن یہ تھی کہ صبح سب کا م پر جا تے تھے شام کو گھر آتے ہوئے سر کا ری سٹور سے آٹا، گھی، دال وغیرہ لیکر آنا ہو تا تھا جہاں صرف ایک دن کا راشن ملتا تھا، اُسے پکا کر کھا تے صبح واپس کام پر جا تے یہ اُن کی زند گی تھی ایک دوسرے کے غم یا خو شی میں شریک ہو نے کی فرصت نہیں تھی، ڈاکٹر محمد انور خان نے ایک سیمنار میں یہ رودا سنا ئی تو ہم حیراں رہ گئے اب یہ ہما رے اپنے شہروں اور ددیہی علا قوں میں روز کا معمول ہے بقول اقبال ہم ”بند شب و روز میں بند ھے ہوئے بندے“ انسان سے مشین بننے کا سفر دلجمعی کے ساتھ طے کر رہے ہیں، بہت ہوشیا ر اور بیحد ذہین لو گ یہ سفر طے کر چکے ہیں دادی اماں کی کہا نیوں کے مقا بلے میں ٹام اینڈ جیری اور ڈولی مون نے بچوں کو بہلا نا شروع کیا ہے جس گھر کی خا تون کام پر نہیں جا تی وہ سارا دن میاں کے گھر آنے کا انتظار کر تی ہے شام کو بچے سو جا نے کے بعد میاں بازار سے فارغ ہو کر گھر آتا ہے صبح بچوں کے سکول جا نے کے بعد وہ اُٹھ کر بازار کا رخ کر تا ہے بچے اپنے باپ کو ہفتہ اور اتوار کے دن گھر آنے والا مہمان سمجھتے ہیں ہم اس حال میں خو ش ہیں۔