داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی۔۔۔ووٹر کا بجٹ
نئے ما لی سال کا وفاقی بجٹ آیا تو اس پر مختلف تبصرے اور تجزیے شروع ہوگئے ہیں قو می اسمبلی میں حزب اختلاف کی جگہ خا لی ہے اس لئے بجٹ مو جود ہ شکل میں مطا لبات زر اور فنا نس بل کے ساتھ آسا نی سے منظور ہو جا ئے گا کوئی بحث و تمحیص یا رکا وٹ نہیں ہو گی لیکن اصل مسئلہ ووٹر کا ہے کیا ووٹر کے لئے اس بجٹ کو منظور کرنا آسان ہوگا یا نہیں؟ پریس کلب کے اندر ایک بڑی مجلس میں یہ سوال داغا گیا تو جواب کی جگہ اُدھر سے سوال آگیا کہنے والے نے پو چھا ووٹر سے کون مراد ہے با یو میٹرک ووٹ والا ووٹر یا عام ووٹر؟ ہم نے کہا الیکٹر انک ووٹنگ مشین کا بل منسوخ ہو گیا ہے اب تو عام ووٹ ہی چلے گا سوال کرنے والے نے کہا عام ووٹ میں ووٹر مہر کا استعما ل کر کے ہاتھ کی پا نچ انگلیوں سے ووٹ دیتا ہے ای وی ایم کے سسٹم میں ووٹر مشین پر انگو ٹھا رکھ دیتا ہے اور ووٹ شمار ہو جا تا ہے بات کر نے والے نے کہا مسئلہ طریقے کا نہیں مسئلہ قانون کا ہے ووٹ کے وقت قانون کو تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے جس طرح پہلے قانون کی جگہ ای وی ایم کا قانون لا یا گیا تھا اس طرح ای وی ایم کی جگہ دوبارہ پرانا قانون لا یا گیا اس طرح پھر نیا قانون لا یا جا سکتا ہے قانون اور طریقہ کار کی بحث کو چھوڑ و پہلے یہ بتاؤ کہ مو جو دہ بجٹ ووٹر کے لئے قابل قبول ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا ”آپ کیا بات کر تے ہو َ“ جس طرح ووٹر اور ووٹ کا قانون ہر دوسرے مہینے تبدیل ہو جا تا ہے اس طرح ہمارا بجٹ کا غذوں میں پرانے سسٹم کے تحت سالا نہ بجٹ کہلا تا ہے مگر اب یہ سا لا نہ بجٹ نہیں رہا اب یہ ما ہا نہ بجٹ ہو گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہو تے ہیں اور ہر ما ہ ٹیکسوں کا نیا نظا م آتا ہے ڈالر، تیل، گیس اور بجلی کے نئے ریٹ آ جا تے ہیں نئے ریٹوں کے ساتھ تخمینہ بدل جا تا ہے، میزا نیہ بدل جا تا ہے اور اہداف بدل جا تے ہیں آپ کسی ما ہ بھی اس بجٹ کو آخری بجٹ نہیں کہہ سکتے یا دش بخیر! پشاور کے رورل اکیڈ یمی میں دیہی تر قی کے سپیشلسٹ جا وید صاحب ہوا کر تے وہ لیکچر کے لئے آتے اور تر قیا تی سکیموں کی تر جیحا ت پر لیکچر دیتے تو اس میں بہت سے مقاما ت پر سوال اٹھا ئے جا تے مثلا ً پینے کے پا نی کا منصو بہ لا نا ہے تو اس میں صنفی مساوات کی کیا ضرورت ہے؟ مثلاً گاوں کے لئے پل یا سڑک بنا نی ہے تو صنفی مساوات پر غور کرنے کے کیا معنی ہو نگے؟ جا وید مسکرا تے اور کہتے کہ صنفی مساوات کے بارے میں ”گوراما موں“ بہت حساس واقع ہوا ہے وہ جس منصو بے کے لئے پیسہ دیتا ہے اس میں صنفی مساوات کا ذکر ڈھونڈ تا ہے اگر صنفی مساوات کا نا م نہ لیا جا ئے تو گورا ما موں ایک پا ئی نہیں دیتا چنا نچہ نئے ما لی سال کا بجٹ پیش کر نے کے بعد وزیر خزا نہ نے قوم کو خبر دار کیا ہے کہ ”گورا ما موں“ کو مطمئن کرنے کے لئے ہمیں ٹیکسوں میں ردو بدل یا اضا فہ کرنا ہو گا اب یہ بات سب جا نتے ہیں کہ مو جود ہ حا لات میں گورا ما موں انٹر نیشنل ما نیٹری فنڈ (IMF) ہے اور آئی ایم ایف کو راضی کئے بغیر ہمارے خا لی خزا نے کے اعلیٰ حکام ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے جب وہ خوش ہو تے ہیں تو کہتے ہیں ”قدم بڑھاؤ وزیر صاحب!ہم تمہارے ساتھ ہیں“ شاید اس صورت حا ل یا اس جیسی صورت حا ل کے لے شعراء کے امام میر تقی میر نے کہا تھا ہم مجبوروں پہ نا حق تہمت ہے مختاری کی، جو چا ہے سو آپ کرے ہے ہم کو عبث بد نا م کیا پریس کلب کی مجلس میں گفتگو کا رخ پھر ووٹر کے بجٹ کی طرف موڑ دیا گیا تو ایک سینئر صحا فی نے کہا ابھی ووٹ کا سیزن ہی معلوم نہیں، ووٹ کس حا ل میں ہو گا؟ ووٹ کون کرائے گا؟ اس کا اعلا ن ہو جا ئے تب ووٹر کے سو چنے کی باری آئیگی اب تو ووٹر کچھ نہیں جانتا کہ آگے کیا رکھا ہے؟ دوسرے بڑے صحا فی نے کہا اب تو ووٹ مانگنے والوں کو نہیں پتہ کہ ان کے ہاتھ میں ووٹ کا کشکول کن حا لات میں آئے گا؟ آخریہ طے پا یا کہ پورا سسٹم شکوک و شبہات کی زد میں ہے، سسٹم پر غیر یقینی صورت حال کی مہر لگی ہے نہ بجٹ حرف آخر ہے نہ ووٹر کی رائے اور یہ بات صو بائی بجٹ پر بھی صادق آتی ہے۔