داد بیداد ۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔اعتدال کی سیا ست
وطن عزیز پا کستان میں اعتدال کی سیا ست کبھی نہیں رہی ہمارے ہاں سیا سی رہنما وں نے ہمیشہ اندھی محبت اور اندھی عداوت کا وطیرہ اپنا یا انگریز ی میں اس رویے کو ایکسٹریم لائک اینڈ ڈس لا ئک کا نا م دیا جا تا ہے 1950کی دہا ئی سے یہ وطیرہ چلا آرہا ہے 2022میں یہ وطیرہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے اس کا الزام کسی ایک لیڈر یا کسی ایک پارٹی کو نہیں دیا جا سکتا ہمارا قومی رویہ ایسا ہے اجتما عی رویہ ایسا ہے ملک کے اندر مو جودہ آئینی اور انتظا می بحران کا اگر کوئی حل نکل آیا تو وہ اعتدال کی سیا ست کے ذریعے نکلے گا اندھی محبت اور اندھی عداوت کے ذریعے نہیں نکلے گا اس کا فو جی حل بھی دیر پا نہیں ہو گا، عدالتی حل بھی دیر پا نہیں ہوگا اگر ملک کو جمہوریت کے راستے پر چلتے ہوئے قوموں کی برادری میں اس کا جا ئزمقام دینا ہے تو ہمیں اپنی سیاسی سوچ اور فکر کو اعتدال کے راستے پر ڈالنا ہو گا، اس کو اندھی محبت اور اندھی عداوت کی بند گلی سے با ہر نکالنا ہو گا اس وقت پا کستان کو چار محا ذوں پر مختلف مسا ئل در پیش ہیں پہلا مسئلہ فنانشل ٹا سک فورس فار ٹیرر فنانسنگ (فیٹف) کی مشکوک لسٹ سے ملک کو نکا لنا ہے تا کہ اقتصادی اور کاروباری لحاظ سے دنیا کی ما رکیٹ میں پا کستان کا وقار بحا ل ہو جا ئے ہمارے دشمن مما لک کی مسلسل کو شش ہے کہ پا کستان فٹیف کی مشکوک لسٹ سے با ہرنہ نکلے دوسرا مسئلہ افغا نستا ن کے اندر امارت اسلا می کی نئی حکومت کے بارے میں عالمی برادری کے ساتھ چلتے ہوئے اپنے مغربی پڑو سی کو انسا نی ہمدردی کی بنیا د پر ہر طرح کی حمایت فراہم کرنا ہے جو بیحد نا زک کا م ہے تیسرا مسئلہ مشرقی سر حد پر اپنے دشمن کی ریشہ دوا نیو ں کا مقا بلہ کرنا ہے اور یہ بات یا د رکھنے کے قابل ہے کہ مشرقی سرحد پر واقع ملک نے پا کستان کے اندر دہشت گر دی اور خا نہ جنگی کا مضبوط نیٹ ورک بچھا رکھاہے اس وقت بلو چستان، سندھ، جنو بی پنجا ب اور قبائلی اضلا ع میں پا ئی جا نے والی بے چینی اس نیٹ ور ک کی وجہ سے ہے چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ ملک میں سول انتظا میہ کو کمزور کر کے سیا سی اشرافیہ کو طاقتور بنا یا گیا تھا اب سیا سی اشرافیہ آپس میں خا نہ جنگی سے دوچار ہوا ہے، سارے معاملات میں عدلیہ کو گھسیٹا جا رہا ہے، عدلیہ بھی ایک دن جواب دے دے گی تو سارا ملبہ فوج پر گرے گا جس کے ذمے ملکی سر حدوں کی حفاظت اور اندرون ملک دہشت گردی کا مقا بلہ کرنے کی بھاری ذمہ داری ہے دو امور ایسے ہیں جو پا کستان کو دنیا میں منفرد مقا م دیتے ہیں اور دونوں امور دنیا میں ہر جگہ ہر وقت زیر بحث رہتے ہیں ان میں سے ایک پا کستان کا آئین ہے جس میں احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے اس کو مغربی اقوام پسند نہیں کرتے دوسرا ہمارا ایٹمی پرو گرام ہے جس کو دنیا کی طاقتور اقوام شک کی نظرسے دیکھتی آرہی ہیں مذکورہ بالا حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی مو جو دہ صورت حال اور اس کے ممکنہ نتا ئج پر غور کیا جا ئے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے سیا سی اشرافیہ کے غیر لچک دار رویے اور اندھی محبت یا اندھی عداوت کی وجہ سے ہمارے دشمن کا کا م آسان سے آسان تر ہو تا جا رہا ہے ملک اور قوم سے محبت کا یہ تقا ضا ہے کہ سیا سی اشرافیہ اپنے گنا ہوں کا بوجھ عدلیہ اور فوج کے کندھوں پر ڈالنے کے بجا ئے آپس میں بیٹھ کر اپنا بوجھ اتار ے یا بو جھ اتار نے میں ایک دوسرے کی مدد کرے یہ بات یا د رہنی چاہئیے کہ سیا ست میں جا نی دشمنی، خا ندا نی رقا بت اور شخصی انتقام کی گنجا ئش نہیں ہوتی سیا ست کو وکا لت سے تشبیہہ دی جا تی ہے دو مخا لف وکلا ء عدالت کے اندر مخا لفا نہ بحث کر تے ہیں عدالت سے با ہر آکر ان کی گہری دوستی ہو تی ہے اس طرح پڑھے لکھے اور عالی ظرف خا ندا نی مغزز سیا ستدان پا رلیمنٹ کے اندر آئینی امور پر بحث کر تے ہیں تکرار کر تے ہیں بحث کے خا تمے پر ایک دوسرے کو گلے لگا تے ہیں گہرے دوست نظر آتے ہیں ان میں جا نی دشمنی نہیں ہو تی اعتدال کی سیا ست اس وقت ہماری قومی ضرورت ہے اور اندرونی خا نہ جنگی سے بچنے کا یہ واحد راستہ ہے