داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔فیصلہ
نور مقدم قتل کا مقدمہ عدالت میں لا یا گیا ہے فیصلہ مشکل ہے کیونکہ مقدمے کا ایک فریق امریکی شہری ہے اس کو سزا دینے کا اختیار کسی کو حا صل نہیں مو صوف کو پا گل ثا بت کر نے پر زور دیا جا رہا ہے پر یا نتھا کمار قتل کا مقدمہ ابھی تک عدالت میں نہیں آیا اگر عدالت میں آگیا تو فیصلہ کرنا مشکل ہو گا 5دنوں کے اندر مقدمے کو اتنا الجھا یا گیا ہے کہ سر پیر کا پتہ نہیں چلتا پو لیس نے آنسو گیس استعمال نہیں کی، ہوائی فائر نگ نہیں کی، ہجوم کی مزا خمت میں کوئی پو لیس والا زخمی یا فو ت نہیں ہوا فیصلہ سے پہلے فیصلے کی راہ میں رکا وٹ ڈالنے کے لئے تین کہا نیاں لا ئی گئی ہیں پہلی کہا نی یہ ہے کہ پو لیس نے فیکٹری کو آگ لگانے نہیں دیا، دوسری کہا نی یہ ہے کہ مشتعل ہجوم کے ہا تھوں میں پیٹرول کی بو تلیں تھیں، تیسری کہا نی یہ ہے کہ ملک عدنان کو ہیرو بنا یا گیا اس نے اپنی جا ن پر کھیل کر انسا نیت کی مثال قائم کی کیا اُس نے سر ی لنکا کے شہری کی جا ن بچائی؟نہیں یار یہ ممکن نہیں تھا کیا اُس نے لا ش کو جلا نے سے بچا یا؟ نہیں یار یہ بھی ممکن نہیں تھا پھر بہادر، دلیر اور تمغہ شجا عت کے حقدار شہری نے اپنی جا ن پر کھیل کر کیا کار نا مہ انجا م دیا؟ اس کا جواب کسی کے پا س نہیں کہا نی کو الجھا نے اور فیصلہ کی راہ میں روڑے اٹکا نے کے لئے ایسی بے سروپا کہا نیاں تراشی جا رہی ہیں 5دنوں میں کسی نے یہ مطا لبہ نہیں کیا کہ سری لنکن شہری کے قتل کا مقدمہ فو جی عدالت میں چلا یا جائے مقدمے کا فیصلہ فو جی عدالت کے بغیر نہیں ہو سکتا کسی نے یہ مطا لبہ نہیں کیا کہ واقعے کے پیچھے پڑوسی ملک کے خفیہ کر دار کو تلا ش کر کے غیر ملکی ایجنٹوں کو بے نقاب کیا جا ئے دراصل ایسا ہونا چاہئیے اور بڑا مطا لبہ یہ بھی ہے کہ ہجوم میں سے پکڑے گئے 131ملزموں کے ساتھ موقع پر مو جود پو لیس کو بھی شامل تفتیش کیا جا ئے فیکٹری کے ما لک کو بھی گرفتار کیا جا ئے لیکن اب تک ایسے مطا لبات سامنے نہیں آئے جو فیصلہ کرنے میں مدد گار ثا بت ہو سکتے ہوں ہجوم کے ہاتھوں سری لنکا کے شہری کا قتل کسی بھی بڑے سانحے کے برابر سانحہ تھا اس کو سنجیدہ لینا چاہئیے تھا اب بھی اس کو سنجیدہ لینے کا وقت ہے اگر یہ مقدمہ عدالتوں میں 45سالوں تک چلتا رہا تو نہ صرف سری لنکا کی حکومت اور سارک مما لک کے سامنے ہماری ساکھ خراب ہو گی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہم کسی کو منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہینگے مجھے وہ دن نہیں بھولتا جب ایران کے ایک شہر میں خود کش دھما کہ ہوا چند شہری مارے گئے، اگلے روز تین مجرموں کو عین دھما کے کی جگہ پر لا کر پھا نسی دی گئی ان کی لا شیں 7دنوں تک لٹکتی رہیں پھر ایران میں ایسا واقعہ نہیں ہوا ریا ست اگرا نصاف کرنا چا ہے، عدالتیں اگر مقدمے کا فیصلہ کرنا چا ہیں تو 24گھنٹے کی مہلت کا فی ہے 24گھنٹوں میں فیصلہ بھی ہو سکتا ہے انصاف بھی ہو سکتا ہے اور انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آسکتا ہے مو جو دہ حالات میں صرف فو جی عدالت ہی انصاف کے تقا ضوں کو پورا کر سکتی ہے مجھے عدالتوں میں زیر التوا ء 21لا کھ مقدمات میں سے ایک مقدمہ یاد آرہا ہے جس کا فیصلہ 1976سے التوا ء کا شکار تھا خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ عالمی حدت، گلو بل وار منگ آگئی، پا نی کے بہت سارے چشمے خشک ہوئے جس چشمے کا مقدمہ 1976ء سے 2020تک زیر سما عت تھا وہ چشمہ بھی خشک ہوا مقدمہ خو د بخود ختم ہوا ”نہ رہے با نس نہ بجے بانسری“ تفصیل اس اجما ل کی یہ ہے کہ چشمے کے پا نی پر جھگڑا ہوا مقدمہ نائب تحصیلدار کی عدالت میں آیا چلتے چلتے سپریم کورٹ تک گیا تین بار ریمانڈ ہوکر واپس نا ئب تحصیلدار کے پاس آیا چوتھی بار سپریم کورٹ سے ریمانڈ ہو کر پھر آنے والا تھا کہ چشمہ خُشک ہو گیا 44سال لگے تھے فریقین نے اس مقدمے پر ایک کروڑ 10لا کھ روپیہ لگا یا تھا عدالت سے فیصلہ آنے کی تو قع نہیں تھی قدرت نے فیصلہ سنا دیا نو رمقدم اور پریا نتھا کمار قتل کے دونوں مقدمات ہماری ریا ست کے لئے ازما ئش کا در جہ رکھتے ہیں ایک مقدمے میں غیر ملکی شہری نے پا کستانی لڑ کی کو بیدر دی سے قتل کیا سفارت خا نہ قاتل کو چھڑا نا چا ہتا ہے دوسرے مقدمے میں پا کستانی ہجوم نے سری لنکا کے شہری کو قتل کیا ایک گھنٹہ بعد اُس کی لا ش کو آگ لگا دی سری لنکا کے سفارت کار قاتلوں کو سزا دلوانا چاہتے ہیں فیصلہ صرف فو جی عدالت میں ہو سکتا ہے۔