دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔”محنت کے شاخسانے ”
یہ آج کے نوجوان محنت سے دور کافی فاصلے پر ہیں۔ان کے ذہنوں میں خواب سوار ہیں وہ کوئی معجزہ چاہتے ہیں اور اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
پس دیوار شب سونا نہیں ہے
معجزہ اب کوئی ہونا نہیں ہے
باتیں بہت ہائی فائی ہیں لگتا ہے علم کے خزانے ان کے پاس ہیں تمام مہارتوں کے ناخدا وہ ہیں ان کے سامنے تجربے اور عمر کی کوئی حیثیت نہیں۔جو واقعی با صلاحیت ہیں وہ خاموش ہیں بات یہ نہیں کرتے کوئی دعوی نہیں۔ان کے پاس نمبروں کی گھٹڑیاں بھی نہیں۔ بمشکل فرسٹ ڈوژن ہونگے۔تعلیم یافتہ گلی کوچوں میں موج در موج ہیں ہر سال کئی ڈگری ہولڈر ہو رہے ہیں عملی میدان میں اگر ان کی قابلیت کو گیچ کیا جایے تو آپ انگشت بدندان ہونگے۔حیران ہونگے آپ کو کسی ڈگری وغیرہ پر شک پڑے گا اس کے ٹھاٹھ باٹھ سے گھن آئے گا۔یہ پیداوار جو ہم قوم کو دے رہے ہیں کیا یہ خام مال ہیں یا خستہ مال۔۔یہ ہنرور ہیں یا بے ہنر۔یہ خالی ذہن ہیں یا کچھ شد بت پاس رکھتے ہیں۔ہمارے امتحانات ہمارے نتایج ہمار ے میرٹ سسٹم ہمارے طریقہ تدریس ہماری یونیورسٹیاں اور دوسرے تعلیمی ادارے کیا اہل پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے سکالرز کیا واقع سکالر کہلانے کے لائق ہیں۔۔کیا ہمارے ہاں Talent کی کوئی قدر ہے۔یہ سب سوچنے اور سوچ کے بے چین ہونے کی باتیں ہیں۔ہمارے نوجوان اس لیے خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔دن گیارہ بجے اٹھتے ہیں۔کچھ وقت فیشن میشن اور سٹائل بنانے میں گزرتا ہے باقی وقت فیس بک وغیرہ میں گزرتا ہے درمیان میں Psl, Apl,T20 وغیرہ آجائیں تو ان کاوقت مذید قیمتی ہوتا ہے۔ آج کل التغرل نے بچے گھچے چند منٹ بھی چھین لیا ہے۔۔آج کا نوجوان کس جہان میں ہے۔۔اس کا Prime time جس پر آگے اس کی زندگی کا انحصار ہے اس کے ہاتھوں ضائع ہورہا ہے۔بیچارے والدیں خواب دیکھتے ہیں ان کے ساتھ Argu نہیں کر سکتے کیونکہ وہ تعلیم یافتہ ہیں۔یہ مایوسی یہ نااہلی ہمیں کہیں نہ لے ڈوبے۔۔ماضی ایسی بے ہنر قوموں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔اس کے نوجوان نا اہل ہوتے رہے قوموں کیزوال کے اثار نمودار ہوتے رہے۔۔ہمارے نوجوان ستاروں پہ کمند ڈالنے کے اہل ہونے کی بجایے فطرت گوسفندی اور عقابی روح کی آرزو کرنے کی بجایے بھوم و کرگس کی فطرت کے شناسا بنتے جاتے ہیں۔۔ایک غیرتمند قوم کا نوجوان اہل، ہنرور، محنتی اور جفاکش ہوتا ہے گفتار کا غازی نہیں ہوتا۔اس کا کردار بولتا ہے۔اس کی صلاحیت قوم کا مداوا ہوتی ہیں۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں احساس تک نہیں۔جو نوجوان کسی سیاسی پارٹی کی حمایت میں میدان میں اترتے ہیں عجیب لگتا ہے کہ تعمیری سوچ سے بے بہرہ روبوٹ ہیں ان کے پاس اخلاق اقدار نام کی کوئی چیز نہیں۔اگر کسی کھیل کے میدان میں جاو تو نوجوانوں میں صفت شاہینی نظر نہیں آئے گی۔کسی محفل میں جاو? توان کا لباس پوشاک نشست و برخواست دیکھ کر مایوسی ہوگی۔اس مرحلے میں سوالیہ نشان کون ہیں۔۔ادارے،خاندان،معاشرہ یا قوم کے بزرگ اور راہنما۔۔۔جواب مشکل ہے
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات