استارو اور چومبور پل، چترال کے دو عجوبے،۔ تحریر۔۔۔شمس الرحمن تاجک
استارو پل کراس کرکے آپ صرف استارو نہیں پہنچتے، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کہ مصداق یہاں سے آگے ایک پورا جہاں آباد ہے، اس پورے جہاں سے ووٹ مانگنے کا وقت قریب آچکا ہے پتہ نہیں کس منہ سے ان لوگوں سے ووٹ مانگا جائے گا اور کس دل سے وہ لوگ ووٹ دیں گے۔ مسند اقتدار پر براجمان لوگ جہاں آواز اٹھانے میں ناکام رہے ہیں وہیں دوسری طرف وہ لیڈرشپ جو الیکشن کے دنوں میں ہر کونے سے اُگ آتے ہیں ان کو بھی شرم نہیں آئے گی ان علاقوں کا دورہ کرکے۔ ہمیں معلوم ہے کہ آپ سب کے بس میں کچھ بھی نہیں ہے مگر قیادت احتجاج تو کرسکتی ہے۔ نمائندے اور ملازم میں فرق یہی ہوتا ہے کہ ملازم صرف اس وقت تک کام کرتا ہے جب تک تنخواہ ملے اور لیڈر ہمیشہ کا ہوتا ہے۔
پل استارو کا ہو یا پھر وادی لٹکوہ کا۔ آواز کسی کے لئے نہیں اٹھایا جاتالیڈرشپ کی طرف سے۔ ہمیں اللہ کے فضل سے ایسی لیڈرشپ میسر ہے جو عوام کی تکلیف کو انجوائی کرتی ہے بجائے مسائل کے حل کے طریقے ڈھونڈنے کے وہ اقتدار میں نہ ہو تو مسائل پیدا کرنا اپنے فرائض میں شمار کرتی ہے۔ فضول کی چاپلوسی اور غیر حقیقی رویوں کو سیاست کا نام دے کر ذاتی مفادات حاصل کرنا ہی ان کی سیاست کا محور بن چکا ہے۔ قیادت کے فقدان اور ملک میں نسلوں سے تربیت کا حصہ رہنے والی ذاتی مفاد کے تقدیس کی وجہ سے ملکی اور عوامی مفاد ہمیشہ سے آخری نمبر پر رہا ہے جو اب ایک ناسور بن چکا ہے۔کیا اس ناسور کا کوئی علاج بھی موجود ہے یا پھر کوئی بہتری کہیں صرف دستک کا منتظر ہے۔
چلیں یہ کتابی باتیں چھوڑیں اپنے پلوں کی بات کرتے ہیں ایک پل تحصیللٹکوہ کا ہے اور دوسری تحصیل تورکہو کا۔ دونوں پلوں سے مستفید ہونے والے عام لوگ عجیب کشمکش کا شکار ہیں۔ وادی لٹکوہ والے پل کی سال میں دو دفعہ لاکھوں روپے لگا کر مرمت کی جاتی ہے اور وادی تورکہو کا پل گزشتہ کئی سالوں سے فنڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے بن کے نہیں دے رہا ہے۔ لٹکوہ والے پل کی مرمت عام عوام سے لے کر این جی اوز تک نے اپنے فنڈز سے کرچکے ہیں جبکہ استارو پل کی تعمیر و مرمت کا کام صرف ان دنوں میں ہوتا ہے جب کسی وی آئی پی کی اس علاقے میں آنے کے چانس ز ہوں۔سوال پھر وہی بنتا ہے کہ کسی وی آئی پی کو پاگل کتے نے کاٹا ہے جو اس موسم میں تورکہو جائے گا۔ تورکہو کے باسیوں کو بھی وی آئی پی بننے کا گر معلوم ہے نہ ہی وہ پاگل کتے پالتے ہیں تاکہ وہ ان کو روز روز کاٹیں اور وہ گھر سے زیادہ استارو کے پل پر دکھائی دیں،مقتدر حلقے ان کا تماشا دیکھنے جائیں اس کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ذریعہ میرے علم کے حساب سے نہیں بچا ہے۔ ان کے لیڈران کو اب بھی صبر کی تلقین کررہے ہیں کتنا صبر کسی کو نہیں معلوم۔
استارو پل سے مستفید ہونے والے لوگوں کے احتجاج کا طریقہ بھی انوکھا ہے۔ اس وقت تک وہ احتجاج نہیں کرتے جب تک پارہ منفی 20 کو چھو نہ لے۔ نتیجہ ایسی احتجاج کا وہی نکلتا ہے کہ تیسرے دن ہی انسانوں کے ساتھ ساتھ ان کا احتجاج بھی فریز ہوجاتا ہے۔ انتظامیہ اور مسند اقتدار کے مزے لوٹنے والے افراد کو ایسی جمادینے والی احتجاجوں کا اچھی طرح سے پتہ ہوتا ہے اس لئے پورے زور لگا کر ہمارے نمائندے اپنے اپنے علاقوں کے مسائل کے حل کے لئے احتجاج کرنے والے افراد کو اس وقت تک روکے رکھتے ہیں جب تک چترال میں ہر مائع چیز فریز نہ ہوجائے۔ جما دینے والی موسم کے احتجاجی جب زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہوتے ہیں تو الفاظ بالشت بھر سفر کرنے کے بعد جم جاتے ہیں اس لئے سامعین تک نیک و بد کچھ بھی نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ استارو پل اس سال پھر سے عوام کے مسائل میں اضافے کا سبب بننے والا ہے بجائے آسانیاں پیدا کرنے کے۔
استارو پل کے ستارے کس تاریخ کو گم ہوئے، نہیں پتہ۔ مگرگرم چشمہ وادی کو باقی ملک سے ملانے والا واحد پل 12 اکتوبر کو ٹوٹ چکا ہے۔ ذرائع اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ پل کی خستہ حالی کے بارے میں وہیں ڈیوٹی دینے والے پولیس کے جوانوں نے پہلے ہی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ پل ٹوٹنے والا ہے۔حسب روایت کسی نے کوئی توجہ نہیں دی۔ گاڑیوں کی آمدورفت پر کوئی پابندی لگانا دور کی بات کسی نے گاڑیوں کے وزن اور پل کی موجودہ حالت کا اندازہ تک لگانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں کہ اس پر حیران ہوا جائے ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ یہاں ہمارے ملک میں انسانی جانوں سے زیادہ کمیشن پر توجہ دی جاتی ہے۔ بھلا پل ٹوٹے بغیر کچھ لوگوں کے چولہے کیسے جلتے۔ لہذا پل کو ٹوٹنے دیا گیا ایک حساب سے کہہ سکتے ہیں کہ چومبور پل کو حسب روایات توڑا گیا۔
چومبور پل توڑنے کے لئے جو اوقات مقرر کئے گئے ہیں وہ بھی سوچ سمجھ کر اور حالات کے مکمل تجزیے کے بعد ہی ہوا ہے اتنی تحقیق اگر پل کی مرمت پر کی جاتی تو علاقے کے لوگوں کو سانس لینے کی مہلت تو ملتی۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ پل بہار کے موسم کے آغاز ہی میں اس وقت ٹوٹتا ہے جب آلو کی کاشت شروع ہوچکی ہوتی ہے۔ روزانہ سینکڑوں کے حساب سے آلو کی بوریاں گرم چشمہ ٹرانسپورٹ ہورہی ہوتی ہیں اس بیچ میں پل توڑ دیا جاتا ہے تاکہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر فوری فنڈز فراہم ہوں اور فوری کمیشن کا بھی بندوبست ہو۔ پل ٹوٹنے کی دوسری تاریخ ہر سال آلو کی فصل تیار ہونے کے بعد رکھی جاتی ہے پھر ہنگامی حالات کا نفاذ اور پھر سے تکڑا کمیشن۔ اس سال بھی یہی ہوا۔ مگر اس دفعہ کچھ نیا ہوا ہے پل ٹوٹنے کے بعد انتہائی مہذب انداز میں گرم چشمہ میں احتجاج ریکارڈ کیا گیا جو کہ اس علاقے میں ایک نئی شروعات ہے۔ اس سے بھی اہم بات اس دفعہ پل نے مرمت ہونے سے انکار کردیا ہے اس کے تمام گٹر ٹوٹ چکے ہیں اب ایک دو گٹر لگا کر چھ سات گٹر کا پیسہ اکٹھا کرنا ممکن نہیں رہااگر یہ کھیل کھیلا گیا تو پل اگلے چند دنوں میں پھر سے ٹوٹ جائے گا۔ پل نے یہ ضمانت کب دی ہے کہ اس دفعہ ٹوٹنے پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوگا؟اس صورت میں آنے والے کنفرم جانی نقصان کا ذمہ دار کون ہوگا۔
ان دونوں عجوبوں کو پل بنانے کے لئے ہمیں وجوہات پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔ فرض کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو اربوں کھربوں صرف ایک سوات میں کہا ں سے لا کر لگائے جاتے ہیں۔ حکومت مقروض ہے پھر موٹر وے صرف دیر تک ہی کیوں بنانے کا پلان ہے۔ کیا ٹھیکہ دار برادری صرف چترال میں کام کرتی ہے باقی ملک میں وزیر، وزیر اعلی اور وزیر اعظم کی نگرانی میں ترکول بچھانے کا کام کیا جاتا ہے۔ اگر چترال سے ریونیو کی مد میں ملک کو کچھ نہیں مل رہا ہے تو پھر وانا اور وزیرستان سے کیا ایسا مل رہا ہے جس کے بل بوتے پر وہاں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاتا ہے ایسا جال اور اتنا پیسہ کہ تمام تر کمیشنوں، رشوت اور حرام خوری کے باوجود بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنے حق کے لئے آواز نہیں اٹھاتے اور ہمیں مجبور کیا جارہا ہے کہ آواز اٹھاؤ ورنہ کچھ نہیں ملنے والا۔