داد بیداد ۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔سو شل ٹیکنا لو جی
خبروں میں روحا نی جمہوریت کا ذکر آیا تو بہت سے لو گوں نے سوشل ٹیکنا لو جی کا نا م لیا رو حا نی جمہوریت کی تر کیب بھی نئی ہے سوشل ٹیکنا لو جی کا نا م بھی نیا ہے ہمیں جمہوریت سے بھی محبت ہے روحا نیت بھی ہمیں پسند ہے مگر دونوں کو یکجا کر کے ہم نے کبھی نہیں پر کھا با لکل اسی طرح ہم لو گوں کو سوشل ہو نا اچھا لگتا ہے ٹیکنا لو جی سے ہمیں پیار ہے لیکن سو شل ٹیکنا لو جی سے ہم کو ڈر لگتا ہے ہزار بار کوئی کہہ دے آپ نے گھبرا نا نہیں مگر ہم گھبرا جا تے ہیں نا قا بل بر داشت گھبر اہٹ کا شکار ہوتے ہیں ہما رے دوست فاطمی کہتے ہیں مغل اعظم جلا ل الدین اکبر خو ش قسمت تھے ان کے دور میں فوٹو شاپ کی ٹیکنا لو جی نہیں تھی مغل با د شاہ شا ہجہان بھی خو ش نصیب تھے ان کے دور میں کوئی پا رلیمنٹ کوئی اسمبلی نہیں تھی پلا ننگ کمیشن نہیں تھا اگر یہ معا ملا ت اُس وقت ہو تے تو وہ نہ تا ج محل بنا تے نہ شا ہجہان آبادکو اباد کرتے نہ خو بصورت مسا جد اور با غات تعمیر کر تے قدم قدم پر قواعد و ضوابط اُس کا دا من پکڑ لیتے اُس کا ہا تھ تھا م لیتے اور اس کو کا م سے روک دیتے اگر مغل اعظم کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا سو شل ٹیکنا لو جی ہو تی فو ٹو شاپ کے چونچلے ہوتے تو جلا ل الدین اکبر کے ہاتھ پاوں بند ھے ہوئے ہوتے وہ نہ مر ہٹوں کے خلا ف فوج کشی کر نے کی ہمت کرتا نہ کا بل سے بنگا ل تک اپنی سلطنت کے طول و عرض میں جا سو سی کا جا ل بچھا کر مخا لفوں کو تہ تیغ کر نے کی آزادی کا فائد ہ اٹھا تا وہ تو قدم قدم پر آگے پیچھے، دائیں با ئیں، اوپر نیچے دیکھتا رہ جا تا کہ کہیں خفیہ کیمرہ میری حر کتوں کی عکس بندی تو نہیں کر رہا وہ انا رکلی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرء ت نہ کر تا کہ کہیں انسا نی حقوق والے مجھے دھر نہ لیں فا طمی باد شاہ خصلت آدمی ہیں ان کی سوچ بھی باد شاہوں والی ہے ہم خا ک بسر خا ک نشین باد شا ہوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہماری سوچ بہت بلند پرواز کرے تو بیربل، ملا دو پیا زہ، راجہ ٹوڈر مل اور خا نخانا ن تک جا تی ہے آگے اس کے پر جل جا تے ہیں ہم کس قدر ظا لم سما ج میں رہتے ہیں جہاں ہر وقت، ہر آن ہماری حر کتوں کو تصویروں میں محفوظ کر کے دوستوں میں تقسیم کیا جا تا ہے اور چشم زدن میں لا کھوں صارفین ہماری تصویروں کو دیکھتے ہیں اگر ملا دو پیازہ کے زما نے میں فیس بک اور ٹو ئیٹر کی سہو لت ہوتی تو اُسے بیر بل کو لا جواب کر نے کے لئے باد شاہ کے دربار میں حا ضری کی ضرورت نہ پڑتی وہ فیس بک پر پوسٹ لگا تا اور بیربل کمنٹ میں اس کا جواب دے دیتا راجہ ٹو ڈرمَل پٹوارخا نے سے ٹویٹ کر تا کہ آج زمینوں کی پیما ئش مکمل ہو ئی ادھر خا نخا نا ن ٹویٹ کے جواب میں ٹو یٹر پر ہی حکم دیتا کہ لگا ن وصول کر کے مغل اعظم کے خزا نے میں جمع کیا جا ئے جلا ل الدین اکبر بھی در بار لگا نے کی زحمت نہ فر ماتے اپنی خواب گاہ سے ٹویٹ کر تے کہ مر ہٹوں کو کھلی چھوٹ دی جا ئے تا کہ دنیا میں ہماری ساکھ بہتر ہو ہم پر من ما نی کا داغ دھبہ نہ لگ جا ئے انسا نی حقوق والے ہمیں طعنے اور کو سنے دیتے نہ پھیریں چین، روس اور ایران نے سوشل ٹیکنا لو جی کو اپنی سرحدوں پر روک رکھا ہے ہمارے ہاں کے بڑے بڑے فیس بکی مشا ہیر جب ان میں سے کسی ملک کے دورے پر جا تے ہیں تو مدا حوں کو اطلا ع دیتے ہیں کہ دو مہینوں کے لئے چین، روس یا ایران جا رہا ہوں فیس بک پر وہاں پا بندی ہے میں سو شل میڈیا کے آسمان پر جگ مگ، جگ مگ نہیں کر سکوں گا دوست میرا انتظار نہ کریں شکر کا مقا م ہے کہ حکومت ہمارے ہاں بھی چین، روس اور ایران کے طرز کی پا بند یاں لگا رہی ہے اگر پا بندیاں لگ گئیں تو ہمارا شما ر بھی ان خوش نصیب لو گوں میں ہو گا جو مغل اعظم کے دو رمیں فیس بک اور ٹو ئیٹر کے بغیر خوش و خر م زند گی گزار رہے تھے ”دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو“