داد بیداد ۔۔۔۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔ڈیپ فریزر
اخبارات میں خبر لگی ہے کہ بڑی عید اور قر با نی کے دن نزدیک آتے ہی ڈیپ فریزر کے نر خوں میں دگنا اضا فہ ہوا قر با نی کا گوشت اور ڈیپ فریزر لا زم و ملزوم گر دا نے جا تے ہیں سید نا ابرا ہیم ؑ کے زما نے میں قر با نی کا گوشت پہلے ہی دن ختم ہوتا ہو گا آج سے 1442سال پہلے بنی کریم ﷺ اور صحا بہ کر ام ؓ بھی قر با نی کا گوشت سر دیوں میں دوسرے دن اور گر میوں میں پہلے ہی دن تقسیم کر کے ختم کر تے تھے اس وجہ سے نہیں کہ ان کے پا س ڈیپ فریزر نہیں تھے بلکہ اس وجہ سے کہ یہ شریعت مطہرہ کا تقا ضا ہے یہ قر با نی کا فلسفہ ہے یہ اللہ تعالیٰ کا منشا ہے اور یہ اسلا می تعلیمات کی روح کے مطا بق احسن عمل ہے آج ہمارے پہا ڑی علا قوں کے دیہا ت میں لو گ بھیڑ بکریاں پا لتے ہیں سب لو گ دولت مند اور صاحب نصاب نہیں ہو تے جس گھر چھ سات بھیڑ یں ہو تی ہیں اس گھر کے لو گ ہر سال بھیڑ کا ایک بچہ قر با نی کی نیت سے رکھتے ہیں تیسرے سال قر با نی کے تین دنبے ہو جا تے ہیں ایک دنبہ قر با ن ہو تا ہے اس کی جگہ نیا بچہ لے لیتا ہے اور زنجیر کا یہ سلسلہ کبھی نہیں ٹوٹتا قدیم لا یام سے علما ء نے ان کو یہ بات سکھا ئی ہے کہ قر با نی کا گو شت تین حصوں میں تقسیم کرو ایک حصہ گھر والوں کا دوسرا حصہ قریبی رشتہ داروں کا اور تیسرا حصہ غر با ء، مسا کین اور نا دار لو گوں کا ہو نا چا ہئیے علما ء نے اجا زت دی ہے کہ اپنی سہو لت کے مطا بق کچا گوشت تقسیم کرو یا اسے پکا کر تقسیم کرو گاوں والے گوشت کو چا ول یا گندم کے دا نوں کے ساتھ پکا کر سارا دن لو گوں کو کھلا تے ہیں گھروں میں بھیجتے ہیں شا م تک گوشت کی ایک ایک بوٹی حقداروں کو پہنچتی ہے اگر 50گھرا نوں والے گاوں میں 10گھرا نوں نے قر با نی کا ذبیحہ کیا تو 50گھرا نوں کو اس کا گوشت ملا مر د، عورت، بوڑھا، بچہ، بیمار اور معذور کو ئی بھی گوشت سے محروم نہیں ٹھہرا اگر کچا گوشت تقسیم کرنا ہو تو اسی تر تیب سے ہر گھرا نے میں دو وقت کے سا لن کا گوشت پہنچا دیا جا تا ہے، اب بجلی آگئی ہے فریج اور فریزر گھروں میں رکھے ہوئے ہیں مگر لو گ علما ء کی تر بیت کے اثر سے قر با نی کے گوشت کو دوسروں کی اما نت سمجھ کر تقسیم کر تے ہیں تقسیم کر کے کھنگال نہیں ہو تے اگر دنبے کا دو تہا ئی دوسرے کو دیتے ہیں تو دوسرے گھروں سے اتنا ہی گوشت اُس گھر میں بھی آجا تا ہے وہ اس میں بھی غر با اور مسا کین کا حصہ نکا لتے ہیں لیکن یہ پہا ڑوں کے دامن میں رہنے والے چرواہوں اور گلہ با نوں کی قر با نی کا طریقہ ہے تر قیا فتہ قصبوں اور شہروں میں ایسی قر با نی اب نہیں ہو تی محلے میں دیکھا جا تا ہے کہ کس کے گھر سے بکرے کی را ن بھیجی گئی اس کو جواب میں دُنبے کی ران بھیجی جائیگی رشتہ داروں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو گا غریب اور مسکین کے لئے سو باتوں کی ایک بات رکھی گئی ہے ”با با معاف کرو“ گھر کی قر با نی کا ایک تہا ئی گوشت اگر محلے میں نا م پیدا کرنے اور بدلہ چکا نے کے لئے بھیج دیا گیا تو اتنا ہی گوشت ہمسا یے کے متمول گھروں سے بھی آیا تھا یہ گوشت سارے کا سارا ڈیپ فریزر کی روزی ہے منجمد کرنے والی اس مشین کے رزق میں جتنا گوشت لکھا تھا سب اس کو مل گیا اب آنے والے مہینوں میں اس گوشت کو افیسروں اور متمول دوستوں کے ساتھ دعوتوں میں اڑا یا جا ئے گا ماں باپ کا یہ طرز عمل بچوں کے لئے مثا ل بن جا تا ہے روایت قائم ہو جا تی ہے اس مثال کی پیروی کی جا تی ہے اس روا یت کی پاسداری کی جا تی ہے شاعر کے کلا م میں تصر ف کی اجا زت ہو تو یوں کہا جا سکتا ہے شریعت خرا فات میں کھو گئی یہ امت روایا ت میں کھو گئی نئی حکا یت یہ ہے کہ دو جگری دوستوں نے قر با نی کی ایک نے تقسیم کیا دوسرے نے فریزر میں ڈال دیا رات اُس نے خواب دیکھا کہ تقسیم کرنے والے کا بکرا اس کو مل گیا ہے اس نے کہا میرا بکر ا مجھے کیوں نہیں ملا؟ غیب سے آواز آئی تمہارا بکرا فریزر میں پڑا ہوا ہے۔