دھڑکنوں کی زبان۔۔”اکیلا خان صاحب کیا کرے”۔۔۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

دھڑکنوں کی زبان۔۔”اکیلا خان صاحب کیا کرے”۔۔۔۔محمد جاوید حیات
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک کامیاب جنرل کے پیچھے ایک غیرتمند قوم ہوتی ہے ایک عظیم حکمران کے پیچھے ایک بیدار قوم ہوتی ہے اس کے علاوہ کامیابی کی واحد کنجی قانون عدل اور انصاف ہے۔قانون ایک ایسا ہتھیار ہے کہ اس کے بل بوتے پر ساری کامیابیاں ہیں قانون سے بالا تر کوئی چیز نہیں۔ قران عظیم الشان میں اس بات کی بار بار تاکید ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں۔فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ اگر آپ اپنی طرف سے ہماری آیات پہ تحریف کرتے تو ہم شہہ رگ کاٹ دیتے۔۔باربار کہا اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔یہی قانون اور عدل اسلام کی شان ہے۔ فاروق اعظم کو رپورٹ ہوئی کہ لوگ اسلامی فتوحات کواللہ کی تلوار خالد رضی اللہ سے منسوب کرتے ہیں۔امیر المومنین نے فورا ایکشن لیا عین میدان جنگ میں منصب سے ہٹایا۔۔اللہ کی تلوار نے بغاوت نہیں کی بلکہ اللہ کا شکر ادا کیا ایک سپاہی کی طرح میدان میں کودے۔یہ قانون ہے یہ طاقت ہے۔اس میں ہیرا پھیری جھوٹ اور بہانے کی گنجایش نہیں۔دنیا میں ترقی کرنے والی قومیں اس قانون کے سایے میں ہوتی ہیں۔۔ اس قانون کی نظر میں سب ایک جیسے ہوتے ہیں ملزم مجرم میں تفاوت نہیں ہوتی۔۔مجرم بڑا ہو یا چھوٹا جرم معمولی ہو یا اہم وہ قانون کی گرفت میں ہوتاہے۔ اس لیے امیر المومنین اپنے لخت جگر کو کوڑے لگاتے ہیں باقی کوڑے ان کی قبر کے اوپر لگاتے ہیں اور فرماتے ہیں بیٹا اللہ کے حضور پہنچو تو کہنا کہ عمر انصاف کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے بڑی بدقسمتی قانون کی ناکامی ہے۔یہ مکڑی کا جالا ہے بڑے اس سے آزاد ہیں۔۔کسی مرغی کا معمولی ایف آئی آر سالوں تک انصاف کے انتظار میں پڑا رہتا ہے عدالتوں میں بیٹھے ججز لاکھوں تنخواہ اور مراعات لیکر قانون اور انصاف کی فراہمی میں ناکام ہیں۔ ملزم پر جرم ثابت ہونے میں سالوں لگتے ہیں۔عدالتوں میں ایوانوں میں محکموں میں ہر میدان میں بد عنوانی ہے۔اب ایک بندہ چیختا چلا تا رہے اس کے پاس نہ اپنوں کا ہاتھ روکنے کی طاقت ہو نہ غیروں کی کارستانیوں کا مقابلہ کرنے کا کوئی راستہ ہو تو بندہ کیا کرے۔کسی ملک میں بدعنوانی سرایت کر جائے اداروں کے سربراہ اپنے عملے پر رٹ قائم نہ کر سکے ایک دس سال کا لونڈا سڑک پہ بایک دوڑا رہا ہے کیا یہ خان صاحب کا قصور ہے نہیں یہ قانون اور پولیس کی ناکامی ہے ہاں اگر خان صاحب کو سڑک پہ ایسا لونڈا اتفاقا نظر آئے تو اس کو ہی نہیں اس پورے محکمے کو لٹکائے۔۔کوئی استاد کام نہیں کر رہا کوئی پرنسپل اور قانون اس حوالے سے ناکام ہے خود ساختہ مہینگائی ہے انتظامیہ ناکام ہے۔تعمیرات ناقص ہیں یہ کمپنیاں ناکام ہیں یہ سب ناکامیاں قانون کی ناکامیاں ہیں۔ پاک سر زمین میں قانون ہمیشہ ناکام رہا ہے اس لیے کہ ہم نے اللہ کے نام پہ حاصل کیے ہوئے ملک میں اپنی من مانیاں شروع کی۔اس لیے جو بھی نء طرز حکومت بنانے کی کوشش کی وہ ہماری امنگوں پر پوری نہ اتر سکی۔ہم نے مارشل لا کو لا قانونیت کہا اور جمہوریت کی تمنا کرتے رہے لیکن جمہوریتوں نے بھی کوئی کمال نہیں کیا۔بھٹوسینئر نے اپنی پارٹی کا نام پیپلز پارٹی(لوگوں کی پارٹی) رکھ کر میدان میں اترا لیکن ان کے ورثا نے کوئی کمال نہیں کیا۔جنرل ضیاء سیاہ وسپید کے مالک بنے لیکن خوابوں کی تعبیریں وہاں پر بھی ادھوری تھیں۔۔مسلم لیگ کو حروف تہجی پر تقسیم کی گئی لیکن قانون کی حکمرانی وہاں پر بھی ایسی نہیں تھی کہ اس کو یاد کیا جائے۔اب خان صاحب کا سیاسی نعرہ دلنشین تھا۔۔انصاف کی تحریک۔۔لوگ اس کو آخری امید کے طور پر لے رہے تھے۔لیکن واں بھی حسب روایت المیہ سوالیہ نشان لے آیا۔۔وہی سیاسی گرو اس کے ارد گرد منڈلاتے رہے۔وہی قانون سے بالاتر elements متحرک رہے۔ خان صاحب تقریبا اکیلے رہ گئیورنہ تو آج کرپشن کے پیسے واپس ہو چکے ہو تے اسٹبلشمنٹ میں کرپٹ لوگ اپنے گھر جا چکے ہوتے سیاسی بدعنوان اپنی موت مر چکے ہوتے۔ٹیکس چور عوام کی عدالت میں ہوتے ایسا اس لیے نہیں ہوتا کہ ان کے پیچھے کوئی مضبوط سرگرمی ہے جو ان کی حفاظت کر رہی ہے۔انصاف کا نعرہ لگانے والا اگر اکیلا رہ جائے تو شاید وہ کچھ نہیں کر سکتا۔۔ہمارا معاشرہ جنگل کی مثال پیش کر رہا ہے یوں لگتا ہے کہ ہم کسی ملک کا باشندہ کسی شہر کا شہری کسی آئین قانون کا پابند نہیں ہیں۔۔اپنے حصے کا کام کرنا ہماری فطرت میں نہیں۔دوسروں پر تنقید کرنا ہماری فطرت ہے۔ اگر کسی حکمران کے پیچھے ایسی قوم ہو تو کیا کرے۔ان کو چاہیے تھا کہ ایک صاف شفاف جس کو دوسری زبان میں ”صادق امین” کہتے ہیں گروپ بناتے جو ہر قسم کی بد دیانتی سے پاک ہوتے بدعنوانی لالچ اقربا پروری سے ان کا ماضی داغدار نہ ہوتا۔ان کے سیاسی کارکن صداقت کا سبق پڑھتے اور اس پر عمل کرتے تو خان اکیلا نہ ہوتا۔دوسرا یہ گروہ اپنی من مانیان کرکے ان کو غلط سین دکھاتے ہیں اور ان کو باور کراتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ اگر واضح تبدیلی کی بات ہے تو سب پہ عیان ہوتا۔۔بچوں کی ریپ کیسس ہوئے ملک کے سنجیدہ طبقہ نے کہا کہ ایک مجرم کو سر عام لٹکایا جائے لوگ بھی سمجھیں گے کہ قانون زندہ ہے لیکن آین باین شاین ہوا اور ہو رہا۔۔اگر خان صاحب سیاسی مصلحتوں کا شکار نہ ہونے کا خطرہ مول لیے اور ایرے غیرے کے علاوہ اپنوں کو بھی قانون کے شکنجے میں لانے میں کامیاب ہو جائے تو اکیلا نہیں رہے گا قانون خود اس کی حفاظت کرے گا۔۔اللہ کرے خان کا اکیلا پن دور ہوجائے اور تحریک انصاف واقعی تحریک انصاف ہو۔ورنہ تو اکیلا پن انسان کھا جاتا ہے