داد بیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔۔باپ کا سا یہ
با پ کا سا یہ سر سے اُٹھ جا ئے تو آدمی کا کیا حال ہوتا ہے اس کا اندازہ صرف اُس آدمی کو ہو تا ہے جو اپنے باپ کو دفن کر کے آیا ہو اس لمحے کی درد نا ک اور کربنا ک حا لت کا اندازہ کسی دوسرے کو نہیں ہو سکتا ماں باپ کی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ قرآن اور حدیث میں بار بار والدین کے حقوق اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تا کید آئی ہے بنی اسرائیل کو دیئے گئے بارہ احکا مات میں بھی ما ں باپ کے حقوق کا ذکر مو جود ہے حضرت لقمان کی وصیت میں بھی وا لدین کی قدر و منزلت پر زور دیا گیا ہے اور تو حید کے بعد والدین کی عزت کو دوسرا درجہ دیا گیا ہے آج میرے باپ کا سایہ سر سے اتر گیا تو میرے ذہن پر ان کی 99سالہ زند گی میں سے 61سا لوں کی وہ زندگی چھا ئی ہو ئی ہے جس کو میں نے شعوری طور پر دیکھا تھا اور اس میں کسی حد تک شریک بھی رہا تھا خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے پہا ڑی گاوں با لیم میں مجھے اپنے باپ کے سامنے قرآن پا ک کھول کر تعلیم حا صل کر نے کی سعادت حا صل ہو ئی پھر ان کے قدموں سے قدم ملا کر ایک کلو میٹر کے فا صلے پر سکول آنے جا نے کا مو قع ملا گھر پر جو میرا شفیق باپ تھا وہ سکول میں میر اسخت گیر استاد تھا گھر پر انکی شفقت سے لطف اندوز ہوتا تھا تو سکول میں ان کی سزا کا خوف دامن گیر رہتا تھا بیم و و جا کی اس کشمکش میں میری پرورش ہوئی آج مجھے محسوس ہو تا ہے کہ شفقت کی اُمید کے ساتھ سزا کا خوف بہت ضروری تھا دونوں کا آپس میں گہرا تعلق تھا مجھے ان کی عملی زندگی کا وہ موڑ بہت یا د آتا ہے جب انجا نے میں اُس نے قرآن پا ک کے ساتھ اپنے تعلق کا ذکر کیا اور اس تعلق نے اُن کی زند گی کا رُخ موڑ دیا 22سال کی عمر میں اُس نے فو جی تر بیت مکمل کی تر بیت کی تکمیل کے بعد پیریڈ گراونڈ میں کما نڈ نٹ میجر وائٹ کی مو جو دگی میں سوال ہوا کہ جن جو انوں نے تعلیم حا صل کی ہے وہ ہا تھ اٹھا ئیں میرے والد محمد اشرف نے ہاتھ اٹھا یا ہاتھ اٹھا نے والوں کو سامنے آنے کا حکم ہوا ہر ایک سے پو چھا گیا کتنی تعلیم ہے؟ ایک نے کہا ایف اے، ایک نے کہا میٹرک، چھ جوا نوں نے کہا پرائمیری اور مڈل میرے والد نے کہا قرآن نا ظرہ پڑ ھ کے آیا ہوں پو چھنے والے صو بیدار نے کہا قرآن نا ظرہ تعلیم نہیں ہے واپس جا ؤ میجر وائٹ نے پو چھا کیا معا ملہ ہے ان کو بتا یا گیا کہ سکول کا کوئی سبق اس نے نہیں پڑھا قرآن نا ظرہ کو تعلیم قرار دیتا ہے میجر وائٹ نے کہا اس کو واپس نہ کرو تعلیم یا فتہ جو انوں میں شما ر کرو چنا نچہ ان کا نا م سگنل میں لکھا گیا، پیریڈ کے بعد ایجو کیشن کے صو بیدار شہزادہ افضل ولی نے ان کو بلا یا اور کہا تم نے قرآن نا ظرہ کو تعلیم ثا بت کیا اب میں تمہیں سکول کا سبق پڑ ھا ونگا اور تم بہت جلد مڈل کے برا بر قا بلیت پیدا کروگے چنا نچہ ایسا ہی ہوا شہزادہ افضل ولی کے نا م پر 1944میں پٹھا نکوٹ سے مو لا نا مو دودی کا لٹریچر ڈاک کے ذریعے آتا تھا دروش میں اشرف خا ن خلجی کے گھر پر درس قرآن اور درس حدیث کے حلقے قائم کئے گئے تھے اس طرح جما عت اسلا می کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہوا جو آخر عمر تک قائم رہا 1948ء میں جہا د کشمیر میں حصہ لیا، استور، تراگبل، گریز اور کازگل کے محا ذ وں پر میجر طفیل نشان حیدر کے ساتھ وائر لیس اپریٹر کی حیثیت سے ڈیو ٹی دی 1959ء میں فوجی ملا زمت سے ریٹائر منٹ کے بعد ریا ستی نظم و نسق میں سکول ٹیچر مقرر ہوئے ان کے شا گرد وں نے پا ک فو ج اور سول حکومت کے مختلف شعبوں میں نام پیدا کیا ان کی بیما ری کے دوران کرنل اکرام اللہ خان اور دور ولی خا ن نے ان کے حا لات زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے مضا مین شائع کئے ان کی بیماری صرف دو ہفتے کی علا لت تھی 11جون کو عصر کے وقت اپنے خا لق حقیقی سے جا ملے زندگی کے آخری ماہ و سال انہوں نے مسجد اور مدرسہ کے لئے وقف کئے جہاں ان کے شا گردوں کی بڑی تعداد نے استفا دہ کیا دعوت القرآن، خدام القرآن، صدیقی ٹرسٹ کے پلیٹ فارم پر مہدی محمد اور قاری فیض اللہ چترالی کے تعاون سے سینکڑوں طلباء کو دینی تعلیم سے اراستہ کیا جو کراچی لا ہور، پشاور اور چترال میں دینی خد مات انجام دے رہے ہیں میرے بھا ئیوں میں محمد اکرم قاری عطاء اللہ اور عطاء الرحمن نے ان کی تر بیت سے مقام حا صل کیا اللہ پا ک ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔