دھڑکنوں کی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”یہ کیسی یاد داشت ہے“
”یہ کیسی یاد داشت ہے“
چھٹی جماعت میں استاد نے ڈانٹ پلائی کہ تم پہلی جماعت سے یہ پڑھ کیاآئے ہو کہ سچ جھوٹ غلط صحیح انصاف ظلم حق نا حق ابھی تک تمہیں پتہ نہیں کہ یہ سب کیا ہے کل سوال یاد کرکے آؤ۔۔سانچ کو أنچ نہیں۔۔۔ساتویں جماعت میں استاد محترم نے ڈنڈا مار مار کے تعلیم کے فواید یاد کرائی۔۔۔آٹھویں میں قاید اعظم،شاعر مشرق، ہمارے شہدا پر اسباق تھے ہم نے سوالات رٹ لگا کے یاد کیے۔۔۔نویں اور دسویں میں شہری حقوق ‘فرائض’ جدو جہد آزادی ‘ اس کے لیے قربانیاں اور مقاصد۔۔پھر نظریہ… نصب العین.. مطالعہ پاکستان… آئین’ قانون ‘عدلیہ ‘پارلیمنٹ.. فوج..سویلین…پولیس… ادارے پھر ملک کی تاریخ’ جعرافیہ’ بیرونی تعلقات… سب کچھ پڑھایا گیا۔۔ہم نے یاد کیا سرگرمایا’ جان کھپایا۔۔فنکشن میں تقریریں کی….سکول اسمبلی میں دُعا پڑھی۔۔۔ ملی نغمے گائے۔۔ہم نے سائنس پڑھی ہنر مند بنے۔۔انجینئر ‘ڈاکٹر’ پائیلٹ بنے۔۔ہم نے سوشل سائنس پڑھی بیروکریٹ بنے۔۔ہم نے سیاست پڑھی۔۔۔لیڈر بنے۔۔۔۔لیکن ہماری یاداشت کہاں گئی۔۔ہم وہ سارے سبق بھول گئے… یاد کیے ہوئے وہ سوالات یاد داشت سے مٹ گئے۔۔ہم نے اسلامیات میں صدیقؓ کی صداقت پڑھی تھی۔۔ہم نے فاروق ؓ کا عدل پڑھا تھا ہم نے علی مرتضیؓ کی فقیری پڑھی تھی۔۔ہم نے قاید اعظم کی اصول پسندی رٹ لگا کر یاد کی تھی۔ہم نے اقبال کا شاہین پڑھا تھا۔۔ہم نے ان سرفروش شہیدوں کی قربانیاں یاد کی تھی۔۔اب ہم جب کرسیوں میں بیٹھے ہیں تو کوئی سوال یاد نہیں یہ ہماری کیسی یاد داشت ہے۔۔اب پھر ہمارا استاد ہمیں اس کلاس روم میں لے جائے جہاں اس نے ہمیں پڑھایا تھا کہ قوم کی دولت اس کی امانت ہے۔تم وہ سوال کیوں بھول گئے۔۔۔ہم کیا جواب دینگے.. ہم تو فیل ہو جائینگے۔۔۔ہم انجینئر ہیں کرپشن کر رہے ہیں۔۔۔ہمارے استاد نے ہم سے یاد کرایا تھا کہ ملک و قوم کی تعمیرو تقدیر تمہارے ہاتھ میں ہے۔۔ہماری یہ کیسی یاد داشت ہے۔۔۔ ہم فیل ہیں۔۔ہم سیاسی لیڈر ہیں ہمارے استاد محترم نے ہم سے یاد کرایا تھا کہ قوم کا لیڈر اس کا خادم ہوتاہے سیاست خدمت کا نام ہے۔۔ہم سٹیج پہ جا کے وہ سوال شاید دہراتے ہیں لیکن عملی میدان میں پھر سے بھول جاتے ہیں۔۔ہماری یہ کیسی یادداشت ہے۔۔ ہم اپنی پاک سر زمین کی حدود تک یاد نہیں رکھ سکتے۔۔۔ہم اپنی قومی شناخت بھول گئے ہیں۔۔ہم سے کوئی پوچھے کہ تمہاری قومی زبان کونسی ہے شاید جواب دینے کی زحمت نہ کریں۔۔ہم سے کوئی پوچھے کہ تم سکول کی کلاس میں رٹ لگا کر یاد کرتے تھے کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے۔۔۔قومی پرندہ شاہین ‘چوکور ہے۔۔۔۔قومی پھول چنبیلی ہے۔۔۔ہمارا کوئی قومی جھنڈا قومی ترانہ بھی ہے۔۔ہمارا کوئی آئین قانون بھی ہے۔۔یہ ہماری یادداشت کو کیا ہو گیا ہے وہ سب بھول گئے ہیں۔۔ہم تو اپنی تاریخ اپنا نصب العین اپنا نظریہ زبانی یاد کیا کرتے تھے۔۔ہم تو اپنے بزرگوں کے کارنامے لہک لہک کے یاد کیا کرتے تھے۔۔یہ بھول گئے کیا۔۔۔آج ہمارے ہاتھوں ہماری دھرتی کا کیا حال ہے۔۔ ہم عدل کی کرسی پر بیٹھے ہیں۔۔انصاف کی دھجیان اڑا رہے ہیں۔کسی ادارے کا سربراہ ہیں ادارہ تباہ ہو چکا ہے جہاز اڑا رہے ہیں مگرہماری نا اہلی کی وجہ سے ہماری اڑان پر پا بندی ہے۔ہمارا خزانہ خالی ہے ہمارے ہاں ڈھنگ کی کوئی یو نیورسٹی نہیں۔ہمارے الیکشن میں دھاندلی کی چیخیں اُٹھتی ہیں ہمارے امتحانات میں نقل ہورہی ہے۔۔ہمارے کارخانوں میں دو نمبر کی چیزیں بن رہی ہیں ہم نے توصداقت پڑھی تھی۔۔خدا کی قسم ہم جھوٹے ہیں ان پڑھ ہیں ہم دھوکے باز ہیں ہم نے ایک سوال بھی یاد نہیں کیا ہم کسی ادارے کے پڑھے ہوئے نہیں ہیں۔اب ہم جہاں ہیں جس مقام پہ ہیں نا اہل ہیں۔۔ ہم نے کوئی سوال یادنہیں کیا نہ کوئی امتحان پاس کیا۔۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات