داد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔زبان بندی
ہم چار دوست عرصہ ہوا ساتھ رہتے ہیں شام کو با ہر نکلتے ہیں تو قریبی پارک کے پیچھے دا دا جی کے قھوہ خا نے میں قھوہ پیتے ہیں یہ قھوہ پیٹ کا بو جھ ہلکا کر نے کے لئے نہیں ہو تا بلکہ دل کا بو جھ ہلکا کر نے کے لئے ہو تا ہے قھوہ خا نہ چھو ٹا سا ہے، اس کا ما لک دا دا جی ہر شا م قھوہ بنا تے ہو ئے ہماری گفتگو میں شریک ہو تا ہے یہ گفتگو بہت دلچسپ ہو تی ہے اس میں ہر وہ مو ضو ع زیر بحث آتا ہے جو ریڈ یو، ٹیلی وژن اور اخبا رات میں گردش کر رہا ہو، وطن کے لو گ جس پر بولنا اور سننا چاہتے ہوں، اس قھوہ خا نے میں ہم نے ضیا ء الحق کے مار شل لا ء پر بات کی ہے بھٹو کی پھا نسی پر بات کی ہے، مشرف کے مار شل لا ء پر بات کی ہے محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلا نہ حملے کو زیر بحث لا یا ہے، افغا ن جنگ سے لیکر عراق جنگ، ایران میں انقلا ب، شام اور یمن کی جنگ پر کھل کر بات کی ہے، کشمیر اور فلسطین کے مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے، ہم نے محلے میں صمد کی شادی سے لیکر مراد بیگ کے نئے گھوڑے تک ہر چھوٹے اور نا قا بل ذکر مو ضوع کو بلا جھجک چھیڑا ہے دادا جی کو کبھی اعتراض نہیں ہوا لیکن آج ہم نے عجیب سما ں دیکھا آج دادا جی کا موڈ بگڑا ہوا ہے وہ کسی بھی مو ضوع پر بات کر نے نہیں دیتا اقبال، غا لب فیض اور فراز کے اشعار کو پڑھنے نہیں دیتا، قرآنی آیت یا حدیث کی کسی روایت کا حوالہ بھی اس کو نا گوار گذر تا ہے آج دوستوں نے کہا دادا جی کو کیا ہو گیا ہے یہ کبھی ایسا نہیں تھا ہم نے ان کو اپنی ایک آپ بیتی سنا ئی 6ستمبر کو یو م دفاع کی منا سبت سے ریڈیو پا کستان پشاور میں ایک تقریر کر نی تھی تقریر کا مسودہ دو دن پہلے متعلقہ شعبے میں پہنچا یا گیا تھا، پرو گرام سے آدھ گھنٹہ پہلے حا ضر ہوا تو مسودے میں سرخ قلم سے جگہ جگہ کا نٹ چھا نٹ کی گئی تھی جہا ں بھارت، دشمن،جذبہ جہا د، شہا دت، دانٹ کھٹے کرنے، چاروں شا نے چِت گرانے کے الفاظ تھے وہ سب کاٹ دیئے گئے تھے ہم نے وجہ پو چھی تو غلا م محمد صاحب نے بتا یا اوپر والوں کا حکم ہے کہ بھارت کا نا م نہ لو، دشمن کا ذکر نہ کرو، جذبہ جہا د اور شوق شہادت کا نا م نہ لو، یہ بھی مت کہو کہ دشمن کو شکست ہوئی ہم فتح یا ب ہوئے، ہم نے بو جھل دل کے ساتھ یو م دفاع پر ایسی تقریر کی جس میں ”دفاع“ کا کوئی ذکر نہ تھا دوستوں نے پو چھا اس کی کیا وجہ تھی؟ ہم نے کہا 1979ء میں اوپر والے ایسے ہی احکا مات جا ری کر تے تھے اس کا نا م ”وسیع تر قومی مفاد“ تھا دادا جی کے قھوہ خا نے میں آج کل وسیع تر قومی مفاد چل رہا ہے دادا جی کہتا ہے تم کیو ں مجھے پھنسا تے ہو، میرے قھوہ خا نے کی ہر دیوار پر مشین لگی ہوئی ہے جو ساری باتیں ریکارڈ کر تی ہے تم نے اگر چین کی تعریف کی تو امریکہ نا راض ہو گا بھو لے سے اگر امریکہ کی تعریف میں کوئی بات منہ سے نکل گئی تو چین ناراض ہو گا یہ قھوہ خا نہ دونوں کی ناراضگی کا متحمل نہیں ہوسکتا ایک دوست نے پوچھا واپڈا، ریلوے اور گیس کے محکمے پر بات کرنے کیوں نہیں دیتا؟ دوسرے دوست نے کہا ”وسیع تر قومی مفاد“ میں وفاقی حکومت نا راض ہو جا ئیگی ایک ساتھی نے سوال داغا یو نیور سٹی کے حا لات اور مسائل سے ان کو کیا چڑ ہے؟ ہم نے عرض کیا صو بائی حکومت نا راض ہو سکتی ہے اٹھارویں تر میم کے تحت یہ صو بائی حکومت کے دارئرہ کار میں آتا ہے اس پر دوستوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں قھوہ خا نہ چھوڑ دیں یا گفتگو سے تو بہ کریں، ہم نے کہا ہم درمیا نی راستہ اختیار کرینگے ہم نے اکسیجن کے بارے میں پڑھا تھا کہ یہ بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ گیس ہے ہم ایسی گفتگو کرینگے جس کا رنگ وبو نہ ہو جس کا کوئی ذائقہ نہ ہو مثلا ً آج مجھے پارکنگ کی جگہ نہیں ملی تو واپس اپنے گھر چلا گیا مثال کے طور پر آج میں نتھو خا ن کو ملنے گیا، وہ بہت محبت کرنے والے شخص ہیں ان کی بیگم مزے مزے کے کھا نے پکا تی ہیں ہفتہ دو ہفتہ ان کے ہاں چکر نہ لگا وں تو نتھو خا ن بھی ناراض ہو تے ہیں ہماری بھا بی کو بھی شکا یت رہتی ہے کہ آپ نہیں آتے مثلاً ہم ایک مہینے تک مو سم، چائے لسی اور دہی پر بات کرسکتے ہیں ہم اگلے مہینے اپنی گفتگو کا رخ پا ن، نسوار اور سگریٹ کی طرف موڑ سکتے ہیں دوستوں کا خیال ہے کہ یہی ٹھیک رہے گا اوپر والوں کا بھی خیال رکھنا ہے، قھوہ والے دادا جی کا بھی خیال رکھنا ہے اور اپنے آپ کو بھی با توں میں مصروف رکھنا ہے تا ہم دادا جی کی خد مت میں اتنا عرض ضرور کرینگے کیسا یہ دستور زبان بندی ہے تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔