داد بیداد۔۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔جمہور کا دستور
خبریں گردش کر رہی ہیں کہ وزیر اعلیٰ پنجا ب کے انتخا ب میں ایک بار پھر اسمبلی کے ممبروں نے اپنی قیمت لگوائی یہ پہلی بار نہیں ہوا ہر جگہ جہاں ممبروں کے ووٹ کا معا ملہ آتا ہے وہاں یہ دھندا چلتا ہے چاہے سینیٹ کے ووٹ ہوں، چاہے اعتماد یا عدم اعتماد کا مسئلہ ہو یا صدارتی الیکشن کا مر حلہ ہو اراکین پارلیمنٹ کے کر دار پر سوال اٹھتا ہے پہلے اخبارات اور الیکٹرا نک میڈیا تک محدود ہوتا تھا اب یہ سوال سوشل میڈیا پر ہڑ بونگ مچا تا ہے شور بر پا کر تا ہے اور مچھلی بازار کا سما ں پیدا ہو تا ہے بڑا سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہو تا ہے؟ جواب یہ ہے کہ سیاست مہنگی ہو گئی ہے ڈالر سے بھی مہنگی، تیل سے بھی مہنگی، بجلی، گیس اور سونے سے بھی مہنگی ہو گئی ہے ایک ممبر 80کروڑ روپے لگا کر منتخب ہو تا ہے تو وہ اپنا سر ما یہ منا فع کیساتھ واپس لینے کی فکر ضرور کرتا ہے جس دن وطن عزیز میں دولت خر چ کئے بغیر ممبر منتخب ہوگا اس روزہماری سیاست بد نا می سے محفوظ ہو جائیگی امریکہ، بر طا نیہ، فرانس، جر منی اور جا پا ن کی مثا لیں بہت دور کی مثا لیں ہو نگی ہمارے پڑو س میں اروند کیچریوال اگر ایک پائی خر چ کئے بغیر ممبر منتخب ہوسکتا ہے، وزیر اعلیٰ بھی بن سکتا ہے تو پا کستان کا جا وید اقبال اپنی ذاتی شہرت اور قابلیت یا خد مت کی بنیاد پر کیوں ممبر نہیں بن سکتا؟ اگر عام آدمی پارٹی ہمارے پڑوس میں ایک پا ئی خر چ کئے بغیر جلسہ کرسکتی ہے تو پا ک لو گوں کے وطن میں ایک جلسے پر دس کروڑ روپے کیوں لگا ئے جا تے ہیں، اگر عام آدمی پارٹی ایک پائی خرچ کئے بغیر جلسے کا سٹیج تیار کر سکتی ہے تو پا ک لو گوں کے وطن میں ایک جلسے کے سٹیج کی تیاری پر ڈیڑھ کروڑ روپے کیوں لگائے جا تے ہیں؟ کیا یہ عیا شی ہے یا مجبوری ہے؟ یہ سب کیا ہے؟اس پر غور اور سوچ بچار کی ضرورت ہے اور ہمارے سیاسی نظام کی خا میوں یا خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ سوشل میڈیا کے مو جودہ دور میں ہمارے سیا ستدان اور اراکین اسمبلی پوری دنیا کے سامنے مذاق کا نشا نہ بننے سے بچ جا ئیں اور ہماری سیاست بھری دنیا میں رسوائی سے محفوظ رہے کا لم کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے ہم پا کستان کی سیاست کی تاریخ کو یو نینسٹ پارٹی کے دور سے شروع نہیں کرسکتے، ہم یہ کہا نی عوامی لیگ کی تاریخ سے بھی نہیں چھیڑ ینگے، ہم اس کہا نی کو چھانگا مانگا سے بھی شروع نہیں کرینگے ہم اس کہا نی کو مو جو دہ پارلیمنٹ تک محدود رکھینگے ایک سال پہلے سینیٹ کے الیکشن میں جو شرمنا ک منا ظر دیکھنے میں آئے ان کا تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں،مو جودہ سال تحریک عدم اعتماد کے بہا نے سے سندھ ہاوس کا سانحہ پیش ہوا، پنجا ب میں عثمان بزدار کے استغفٰی کے بعد ممبروں کی بو لی لگی، ایوان کے اندر کئی ہنگا مے ہوئے سپیکر اور وزارت اعلیٰ کے امید وار چوہدی پرویز الٰہی زخمی ہوئے، اسمبلی کا اجلا س اسمبلی ہال کی جگہ باہر منعقد ہوا، حمزہ شہباز کا انتخا ب بھی اسمبلی ہال سے باہر ہوا، اس کی حلف برداری بھی گور نر ہاوس سے باہر منعقد ہوئی گور نر نے حلف لینے سے انکار کیا، سپیکر قومی اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب سے حلف لیا اس ہنگا مہ خیز ی کے پیچھے ممبروں کی خرید و فروخت کا عمل دخل تھا اربوں روپے کے سو دے ہوئے شاعر نے کیا بات کہی ہے تیرے حسن کے چر چے پس پر دہ سہی، میرے عشق کا سودا سر بازار ہوا پا کستان کے عوام، سول سوسائیٹی، وکلا ء، صحا فیوں، ایجنسیوں اور سیا ستدانوں کی تو جہ کے لئے دو باتیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں پہلی بات یہ ہے کہ جلسوں، جلو سوں پر مکمل پا بندی ہونی چاہئیے ان فضول سر گر میوں کی جگہ پرنٹ، الیکٹر انک اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیا سی جما عتیں اور انتخا بات میں حصہ لینے والے لو گ اپنا پیغام رائے دہند گان تک پہنچائیں اس طرح انتخا بی مہم کا نصف خر چہ کم ہو جائے گا اور ایک بے کار، بے فائدہ شغل سے ہم سب کو نجا ت مل جائیگی، راستے بند نہیں ہو نگے، کارو بار بند نہیں ہو گا شہری زند گی متا ثرین نہیں ہو گی، تہذیب اور شرافت کے ساتھ انتخا بی مہم چلا ئی جا ئیگی دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیا سی جما عتوں کی تنظیم نو کر کے انتخا بی نظام کو متنا سب نمائیند گی کے نظام میں بدل دیا جائے، ووٹ دینے والے سیا سی جما عت کے انتخا بی نشان کو ووٹ دینگے ہر سیا سی جما عت اپنے متوقع اراکین اسمبلی کے نا م ایک سر بمہر لفا فے میں الیکشن کمیشن کے پا س جمع کریگی جس طرح خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے لئے آج کل ہو رہا ہے اس طرح قابلیت، اہلیت، سما جی خد مت اور بے لو ث سیا ست کا پس منظر رکھنے والے اسمبلیوں میں آئینگے کا بینہ کے وزراء کا معیار بہتر ہو گا، حزب اختلاف کا معیار بہتر ہو گا اور ممبروں کی خرید و فروخت کا سد باب ہو جا ئے گا ورنہ 80کروڑ روپے لگا کر اسمبلی میں آنے والا جمہور کا یہی دستور آگے بڑھا ئیگا جو ہارس ٹریڈنگ یا لو ٹاکریسی کہلا تا ہے۔