مون سو ن کی شجر کا ری مہم جا ری ہے یہ مہم ان علا قوں کے لئے ہے جہاں ما ہ اگست میں بارشیں ہو تی ہیں اور وہ علا قے نقشے پر دکھا ئے گئے ہیں نقشے پر ایسے علا قوں کی الگ قطار لگی ہوئی ہے جہاں مو ن سون کی بارشیں نہیں ہو تیں یہ وزیر ستان سے چترال کو ہستان سے گلگت بلتستان تک واقع پہاڑی اضلاع ہیں جہاں شجر کاری کا مو سم ما ہ فروری میں شروع ہوتا ہے اور اپریل تک رہتا ہے پہاڑی اضلاع میں اگر ماہ اگست کی کسی سہا نی صبح کو 10ہزار پو دے لگائے جائیں تو ان کو ”سپر د خا ک“ کیا جا تا ہے مٹی میں جا نے کے بعد مٹی سے ان کو نہ پا نی ملتا ہے نہ خوراک ملتی ہے اور نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ پودے سوکھ جا تے ہیں کسی چروا ہے کا تنور ان پر جلتا ہے روٹی پکتی ہے کسی ما ئی کا توا گرم ہو تا ہے چپا تی پکا ئی جا تی ہے عر بی ادب سے ایک حکا یت فارسی اور اردو میں تر جمہ کی گئی ہے حکا یت میں ہے کہ ایک بوڑ ھا آدمی اپنے خمیدہ کمر اور نا تواں ٹانگوں کے سہا رے حر کت کر تا ہو اجا تا تھا اس کے کندھے پر کدال اور بیلچہ تھا ساتھ چند پودے تھے ایک دانا آدمی اس کے ساتھ ساتھ چلتا رہا، ایک جگہ بوڑ ھا آدمی رک گیا اس نے نہر سے پا نی کی ایک نا لی نکا لی اُس نا لی کے کنارے اُس نے 5پودے لگائے بوڑھا آدمی کام سے فارغ ہو کر اُٹھا اُس نے نا لی میں پا نی چھوڑ دیا تھوڑی دیر بعد پا نی کو بند کیا اور واپس جا نے لگا تو دا نا آدمی اُس کے قریب گیا سلا م کرنے کے بعد پو چھا کہ بابا جی تم اس عمر میں یہ پودے کس کے لئے لگا تے ہوں؟ بوڑھے آد می نے کہا آنے والی نسلوں کے لئے دا نا آدمی نے پو چھا تم نے اس جگہ کیو ں پو دے لگائے؟ اُس نے کہا زمین میر ی اپنی ہے اور یہاں پا نی دستیاب ہے بکریوں اور دوسرے جا نوروں سے پو دوں کی حفا ظت کا اہتمام بھی ہے حکا یت سے اہم سبق یہ ملتا ہے کہ شجر کاری آنے والی نسلوں کے لئے کی جا تی ہے دوسرا سبق یہ ہے کہ پودے لگانے سے پہلے پا نی کا بندو بست اور جا نوروں سے حفا ظت کا انتظام ہو نا چا ہئیے جدید دور میں سائنسی تحقیق نے ایک اہم نکتہ دریافت کیا ہے نکتہ یہ ہے کہ پودوں کی اقسام میں وہ پودے زیا دہ کا میاب ہو تے ہیں جو مقا می نر سر یوں سے لا کر قرب و جوار کے علا قوں میں لگائے جائیں خیبر پختونخوا میں ما حول دوست سر گر میوں کے لئے شہرت پا نے والے قو می رضا کار رحمت علی جعفر دوست نے 2015ء میں سابق وزیر اعلیٰ پر ویز خٹک کو ایک فنی اور تکنیکی تجویز کا خا کہ بنا کر دیا تھا اس میں تین اصول وضع کئے گئے تھے پہلا اصول یہ تھا کہ شجر کاری کے لئے مقا می تنظیموں کو حکومت کے ساتھ شریک کیا جا ئے انگریز ی اصطلاح میں پارٹنر کا درجہ دیا جائے ہر تنظیم کو 5سا لوں کے اہداف دئیے جا ئیں پہلے سال مقا می پو دو ں کی نر سریاں لگا ئی جائیں دوسرے سال نر سریوں کی حفا ظت اور آبیا ری کی جائے تیسرے سال پرانے پو دوں کی شجر کاری کر کے نر سریوں میں نئے پو دے لگائے جائیں شجر کاری کے بعد تما م پو دوں کی حفا ظت اور آبیا ری کا مر بوط کام ان تنظیموں سے لیا جائے، 5سال بعد کامیاب پو دوں کی تعداد کے حساب سے پا رٹنر تنظیموں کے بقا یا جا ت اد ا کر کے اگلے 5سا لوں کے لئے نیا منصو بہ شروع کیا جائے اس طرح پو دوں کی کا میاب بڑھوتری ہو گی اور پودوں سے خا لی زمینوں اور ڈھلوانوں پر جنگلا ت نظر آئینگے تجا ویز کا یہ خا کہ UNDPاور GEFکے پر وفیشنلز کو بہت پسند آیا تھا تا ہم محکمہ ما حو لیات نے ان تجا ویز پر مبنی کسی بھی خا کے کو اہمیت نہیں دی نتیجہ یہ ہوا کہ حسن ابدال، ہری پور اور جہلم کی نرسریوں سے لاکر لگائے ہوئے پودے کامیاب نہیں ہوئے پا نی کی کمی اور حفا ظت کا منا سب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے لا کھوں پودے ضا ئع ہو گئے سر کاری وسائل اور فنڈ کے استعمال کا طریقہ بھی نقائص سے خا لی نہیں تھا پودے لگا نے پر معا وضوں کی ادائیگی ہو تی تھی معاوضہ لینے والا مزدور پودا لگا کر معا وضہ لیتا تھا آگے اس کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی ہمارے دوست شاہ صاحب اس عمل کو محکمہ مو سمیات کے پرانے طریقہ کار میں غبارہ اڑا نے سے تشبیہہ دیتا ہے دستور یہ تھا کہ محکمہ مو سمیات کا بیلون میکر غبارے کو پھُلاکر ہوا میں اڑا دیتا تھا اور رپورٹ دیتا تھا کہ ہوا مشرق سے آئی غبارے کو مغرب کی طرف لے گئی یا شما ل سے آئی اور غبارے کو جنوب کی طرف لے گئی اس غبارے کا کیا حشر ہوا؟ کہاں تک گیا اور کہاں جا گرا؟ غبارہ اب کس حال میں ہے؟ یہ اُس کے فرائض میں شامل نہیں تھا محکمہ ما حو لیات کے ریکارڈ میں پودے کو ”سپر د خا ک“ کرنا سب سے بڑی کامیابی شمار ہو تی ہے سپر د خا ک ہونے کے بعد مٹی سے پودے کو پا نی اور خوراک ملتا ہے یا نہیں؟ اس کی طرف دھیان دینا محکمے کی ذمہ داری میں داخل نہیں نیز دو سال یا تین سال بعد کتنے پو دے سلا مت ہیں؟ یہ بھی ذمہ داروں کو پتہ نہیں چنا نچہ پنجا ب سے پو دے لا کر اگست کے مہینے میں پہاڑی وا دیوں کے اندر سپرد خا ک کیا جا تا ہے جہاں شجر کاری فروری اور مارچ میں ہو نی چاہئیے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات