چترال شہر کے وسط میں واقع ایک معروف ہوٹل میں جمعرات کے روز تیسری منزل کی بالکونی کے سامنے حفاظتی دیوار گرنے سے پانچ افراد جان بحق اور پندرہ افراد زخمی ہوگئے۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین)چترال شہر کے وسط میں واقع ایک معروف ہوٹل میں جمعرات کے روز تیسری منزل کی بالکونی کے سامنے حفاظتی دیوار گرنے سے پانچ افراد جان بحق اور پندرہ افراد زخمی ہوگئے۔ حادثے کے بعد زخمیوں کو چترال پولیس کی گاڑیوں اور ریسکیو1122کے ایمبولنسوں میں ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال پہنچایا گیا۔ جہان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئیدو مرد اور دوخواتین دم توڑ گئے جان بحق ہونے والوں میں میاں بیوی اعجاز اور رشیدہ کے علاوہ فاخرہ زوجہ محمد جمیل، رتبہ اور ایک نجی چینل کے بیوروچیف عمران بھی شامل ہیں۔ اس حادثے میں 14زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال چترال میں داخل کر دیا گیا تھا۔ تاہم بعد آزان سنگین نوعیت کے آٹھ زخمیوں کو ہیلی کاپٹر ایمبولینس میں اسلام آباد روانہ کیا گیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے خراب موسم کے باعث ہیلی لواری ٹاپ عبور نہ کر سکا۔ اور واپس چترال پہنچا۔جس کے بعد زخمیوں کو دوبارہ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ زخمیوں کو ہیلی کاپٹر پر لے جانے کے دوران ایک اور زخمی 13سالہ رتبہ بھی جان بحق ہو گئی۔ جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔ اسی طرح زیادہ زخمیوں میں آصفہ 45 سال، میراب16 سال،میسام13 سال، ذوریس8سال، صلہ5 سال، فجر 10 سال اور دوریاس 5 سال شامل ہیں۔ جبکہ دیگر زیادہ زخمیوں میں مدثر،ناصرہ، موسی 10سال اور معمولی زخمیوں میں محمد جمیل، شیراز 10 سال، رضاب 12 سال اور عاصم شامل ہیں
پولیس ذرائع کے مطابق پنجاب کے ضلع قصور کے جناح کالونی سیخ چار خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 21افراد سیاحت کی غرض سے چترال آئے ہوئے تھے اور اس ہوٹل کے چار مختلف کمروں میں مقیم تھے۔مذکورہ افراد بالکونی کے سامنے حفاظتی دیوار سے گروپ میں ٹیگ لگائے فوٹوگرافی کررہے تھے کہ دیوار ان کا زور برداشت نہ کرتے ہوئے ان کو ساتھ لے کر نیچے گرا۔ جس کے نتیجے میں پانچ افراد کی موت واقع ہوئی۔ ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال نیپانچ ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ جبکہ کم نوعیت کے زخمیوں کا علاج ڈی ایچ کیو ہسپتال میں جاری ہے۔ حادثے کیبعد ڈپٹی کمشنر چترال نوید احمد، ڈی پی او چترال عبد الحئی، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر محمد حیات شاہ، ایس پی انوسٹگیشن محمد خالدنے جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ اور ڈی ایچ کیو ہسپتال میں زخمیوں کو طبی سہولیات کی فراہمی اور حادثے میں محفوظ رہنے والے افراد کے لئے کئے جانے والے انتظامات کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر الخدمت فاونڈیشن کی طرف سے جان بحق افراد کے غسل کفن اور تابوت کے انتظامات کئے گئے۔۔ حادثے کے بعد ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی۔ اور شہر کے لوگوں کا ایک جم غفیر امڈ آیا۔ اس وقت زخمیوں کی کراہنے کی آوازیں نا قابل برداشت تھیں۔ جن میں معصوم بچے بھی شامل تھے۔ ہسپتال میں ایمرجنسی بنیادوں پر زخمیوں کے علاج کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ تاہم ناکافی وارڈ ڈاکٹروں اور ادویات و سہولیات کی دستیابی میں کمی نمایاں تھی۔ اور یہ واضح معلوم ہو رہا تھا کہ خد انخواستہ اس قسم کے اجتماعی حادثے کے لئے ہسپتال میں بہت کمزوریاں موجود ہیں۔ جس میں ایکویپمنٹ سے لے کرڈاکٹر اور عمارت تک کمی سب شامل ہیں۔ لیکن اس حادثے میں ریسکیو 1122 اور پولیس کا کردار قابل ستائش رہا۔ خصوصا ریسکیو کی ان کی تیز ترین ریسکیو سروس پر لوگوں نے ان کی تعریف کی ہے۔ درین اثنا ہوٹل کے مالک شہزادہ خالد پرویز نے سوات سے چترال آتے ہوئے دیر میں فون پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے واقعے پر انتہائی صدمے اور افسوس کا اظہار کیاہے۔ اور کہاہے۔ کہ ہم غمزدہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ انسانی جانوں کا کوئی متبادل نہیں۔ تاہم ہماری پوری ہمدردیاں تمام متاثرہ افراد ان کے خاندانوں کے ساتھ ہیں۔ ا نہوں نے کہا۔ کہ ہم موقع پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے پوری حالات سے آگاہ نہیں ہیں۔ کہ کیونکر یہ واقعہ پیش آیا۔ صرف اتنا معلوم ہے۔ کہ یہ مہمان تصویر نکالنے کیلئے ہجوم کی شکل میں بالکونی میں موجود تھے۔ کہ یہ حادثہ ہوا۔ انہوں نے کہا۔ کہ میرے بڑے بھائی ایم این اے شہزادہ افتخار الدین بھی اس واقعے کے بعد اسلام آباد سے چترال آرہے ہیں۔ اور ہم ان مہمانوں کے ساتھ ہر قسم کی ہمدردی کرنے میں کوتاہی نہیں کریں گے۔