آل پارٹیز چترال نے متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے دس دنوں کیلئے لواری ٹنل کو مکمل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے

Print Friendly, PDF & Email

چترال (محکم الدین) آل پارٹیز چترال نے متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے دس دنوں کیلئے لواری ٹنل کو مکمل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاکہ لوئر چترال کے قرنطینہ مراکز میں قیام پذیر سولہ سو افراد کو فارغ کرنے کے بعد آنے والوں کیلئے جگہ فراہم کیا جاسکے۔ بدھ کے روز معاون خصوصی وزیر اعلی خیبر پختونخوا وزیر زادہ کی زیر صدارت اجلاس میں ایم پی اے چترال مولانا ہدایت الرحمن سمیت تمام پارٹیوں کے عہدہ داران صدرتحریک انصاف سجاد احمد، امیر جماعت اسلامی مولانا جمشید احمد، صدر عوامی نیشنل پارٹی عید الحسین، جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی محمد حکیم ایڈوکیٹ، جنرل سیکرٹری پاکستان مسلم لیگ ن صفت زرین، سب دویژن صدر پی ایم ایل ن محمد کوثر ایدوکیٹ، صدر تجار یونین شبیر احمد و دیگر نے چترال میں کرونا وائرس کے حوالے سے درپیش مسائل پر تفصیلی بحث کی۔ اور کہا کہ چترال کے تمام قرنطینہ سنٹرز میں لوگ بھرگئے ہیں۔ ایسے میں مزید لوگوں کے چترال میں داخل ہونے سے یہاں سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس لئے چترال کا مفاد اسی میں ہے۔ کہ لواری ٹنل کو دس دن کیلئے مکمل طور بند کیا جائے۔ تاکہ دس دنوں کے اندر مختلف قرنطینہ میں رہائش پذیر افراد مدت پوری کرکے فارغ ہوں گے۔ تو نئے آنے والوں کو قرنطینہ میں جگہ دی جا سکے گی۔ اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا۔ کہ لواری ٹنل کی بندش کے سلسلے میں پشاور، راولپنڈی، اسلام آباد، دیر اور دیگر شہروں کے اڈوں کو مطلع کیا جائے گا۔ کہ وہ چترال کیلئے گاڑیاں بھیجنے سے احتراض کریں۔ کیونکہ مسافروں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اجلاس میں اپر چترال کے حوالے سے بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اور کہا گیا۔ کہ قرنطینہ ویلج اور یوسی سطح پر قائم کرنے کیلئے بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اجلاس میں اس مر کا بھی اظہار کیا گیا۔ کہ سبزی، مرغی اور دیگر خوراک کی اشیاء کی حامل گاڑیوں پر نظر رکھی جائے۔ اور ان کو آزادانہ طور پر ہر جگہ جانے کا عمل درست نہیں،کیونکہ اس سے وائرس کے پھیلنے کے بہت خدشات ہیں۔ اس موقع پر معاون خصوصی وزیر اعلی وزیر زادہ نے کہا۔ کہ ہ میں ضلع سے باہر چترال کے لوگوں کی تکالیف کا احسا س ہے۔ لیکن ہم انتہائی مجبوری میں لواری ٹنل کی بندش کے اقدام پر اتفاق کرتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی دوسرا اپشن ہمارے پاس نہیں ہے،اور یہ چترال کی پانچ لاکھ کی آبادی کی زندگی کا سوال ہے۔ اجلاس میں اس امر کا بھی اظہار کیا گیا، کہ لواری کی بندش کے بعد چترال کے اندر کاروبار کرنے والوں کے ساتھ نرمی برتی جائے۔ تاکہ مسلسل بندش سے بعض غریب لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ جب باہر سے لوگ نہیں آئیں گے۔ تو مقامی سطح پر وائرس کی منتقلی کے امکانات کم ہو ں گے۔