دنیا پوری طرح کورونا وائرس کے شکنجے میں ہے۔دنیا میں وباو ¿ں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی خود انسانی وجود اور تمدن کی تاریخ ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں متعدد مہلک وباو ¿ں کے انسانی بستیوں پر حملہ آور ہونے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے شواہد موجود ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو کورونا کی وبا انسانی تاریخ کا کوئی منفرد تجربہ ہرگز نہیں ہے، تاہم کورونا اس حوالے سے اب تک کی سب سے پیچیدہ اور مشکل وبا ہے کہ یہ پھیلنے اور ایک سے دوسرے کو لگنے میں انتہائی برق رفتار ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پہلی بار کورونا کی پیدائش دسمبر 2019ئکے وسط میں چین کے شہر ووہان میں ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہر در شہر یہ پھیلتا چین سے دوسرے ملک میں داخل ہوا اور پھر ملک در ملک تباہی پھیلاتا ہوا ایک سے ڈیڑھ مہینے کے اندر اندر اس نے پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کورونا کے اس تیز رفتار مارچ میں آج کے برق رفتار ذرائع مواصلات کا بھی عمل دخل ہے۔ کورونا دوسری وباو ¿ں سے اس لحاظ سے بھی قدرے مختلف ہے کہ اب تک اس کی درست تشخیص اور تسلی بخش سائنسی و طبی جانچ نہیں ہو پائی ہے، اس کی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ اور مختلف خطوں کے قدرتی ماحول کے زیر اثر مسلسل کینچلی بدل رہا ہے۔ اس کی درست حقیقت تک رسائی میں اس مشکل کے باعث تقریباً چھ ماہ گزرنے کے باوجود ایسی کوئی دوا تیار نہیں کی جا سکی ہے جسے متفقہ طور پر کورونا کا تیر بہدف علاج قرار دیا جا سکے۔
کورونا وائرس کی اس پیچیدہ صورتحال کے باعث طبی ماہرین اور سائنسدان اب تک صرف اس بات پر ہی متفق ہو پائے ہیں کہ جب تک حتمی طور پر اس کی کوئی دوا دارو ٹیسٹنگ اور پراسیسنگ کے مطلوبہ تکنیکی مراحل سے کامیابی سے گزر کر سامنے نہیں آتی، تب تک اس کا علاج صرف یہی ہے کہ اس کو پھیلنے سے روکنے کی ہر ممکن تدبیر کی جائے، چنانچہ یہ ضروری قرار پایا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے محتاط دوری اختیار کریں، میل جول سے گریز کریں، ہاتھ ملائیں نہ گلے، ماسک اور گلوز پہنیں، چیزوں کو کم سے کم چھونے کی کوشش کریں اور کسی چیز کو مس کرتے ہی فوری طور پر اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھوئیں اور اوپر سے سینی ٹائزر لگائیں۔ وبا کا پھیلاو ¿ روکنے کی ایک تدبیر یہ بھی سامنے آئی کہ اجتماعی مفاد کی خاطر انسان کے تمام شخصی حقوق سلب کیے جائیں اور تمام انسانوں کو بہ زور ایک دوسرے سے کاٹنے اور دور رکھنے کیلئے شہروں اور ملکوں میں لاک ڈاو ¿ن نافذ کر دیا جائے۔
ماہرین کے مطابق کورونا وائرس اپنی پیدائش کے ابتدائی اسپیل میں بہت خطرناک ہوتا ہے اور ایک اسپیل گزرنے کے بعد بتدریج اس کی شدت میں کمی آتی ہے، چنانچہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ابتدا میں کورونا کی گرفت میں جو شدت رہی، اس کے نتیجے میں دنیا کے مختلف خطوں اور ملکوں میں لاشوں کا ڈھیر لگ گیا اور اموات کا اسکوردیکھتے ہی دیکھتے بلند تر ہوگیا۔ ماہرین کے مطابق 26 فروری کو پہلا کیس ریکارڈ پر آنے کے بعد سے اب تک کوروناپاکستان میں بہت زیادہ پھیل چکا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں بر وقت فکر مندی اور حساسیت کے نتیجے میں شروع میں ہی احتیاطی اور حفاظتی اقدامات کیے گئے اور ابتدائی اسپیل کے دوران سخت لاک ڈاو ¿ن کیا گیا، جس کے نتیجے میں کورونا کا پھیلاو ¿ کم کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ وبا کے پھیلاو ¿ کے باوجود حیران کن امر یہ ہے کہ پاکستان سمیت پورے بر صغیر میں کورونا سے اموات نسبتاً بہت کم ہیں، اس کی وجہ کچھ بھی ہو، یہ ہمارے خطے کیلئے یقینا ایک پلس پوائنٹ ہے، خدشہ تھا کہ کورونا نے پاکستان جیسے ملکوں میں پنجے گاڑ دیے تو تباہ کاری انسانی اندازوں سے باہر ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں کورونا کی گرفت میں نسبتاً کم سختی، اموات میں کمی اور دوسری طرف دنیا بھر میں بتدریج کورونا کے کنٹرول ہونے کی مثبت اور حوصلہ افزا صورتحال کے باعث پوری دنیا میں لاک ڈاو ¿ن میں نرمی اور سماجی پابندیوں میں کمی کی جا رہی ہے، تاکہ کورونا کنٹرول کی حکمت عملی کی کوکھ سے جنم لینے والے خطرناک معاشی بحران کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پاکستان میں بھی لاک ڈاو ¿ن کے بڑھتے ہوئے معاشی سائیڈ افیکٹس کے پیش نظر لاک ڈاو ¿ن میں بڑے پیمانے پر نرمی کی جا چکی ہے، چند اہم شعبوں کے علاوہ بیشتر شعبے کھل چکے ہیں، تاہم پاکستان میں صرف ایک گوشہ اور کونہ ایسا ہے جہاں اس نرمی کے عالم میں بھی سختی اور شدید بے رحمی سے کام لیا جا رہا ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع لوئر چترال ہے، جہاں اس وقت جس شدت کا لاک ڈاو ¿ن نافذ ہے، ایسا لاک ڈاو ¿ن پورے ملک میں کہیں بھی نہیں ہے۔ پورے ملک میں لاک ڈاو ¿ن کی سختیوں کے دوران بھی شہریوں پر حفاظتی تدا بیر کے ساتھ گھر لوٹنے پر پابندی موجود نہیں تھی، لوئر چترال میں مگر آج بھی جبکہ بیرون ملک پھنسے پاکستانی شہریوں کی واپسی کیلئے خصوصی پروازیں چلائی جا رہی ہیں، عالم یہ ہے کہ لوئر چترال کے اندرون ملک مختلف شہروں میں پھنسے باشندوں کو بہ سہولت گھر واپسی کا حق نہیں دیا جا رہا ہے۔
ملک کے کسی شہر اور ضلع میں بھی لوگوں کو داخلی حدود سے پکڑ کر جبری قرنطینہ کرنے کا چلن نہیں ہے، صرف اپر اور لوئر چترال ایسے دو ضلع ہیں، جہاں انتظامیہ کی نادر شاہی سختی کا یہ عالم ہے کہ کوئی غیر مقامی تو چترال کی حدود میں بغیر کسی تگڑے پرمٹ یا سفارش کے داخل ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا، مقامی باشندوں کو بھی آسانی سے گھر جانے کی اجازت نہیں ہے، داخلی حدود میں انٹری پوائنٹ بنے ہوئے ہیں، جہاں سے تمام مسافروں کو پکڑ کر ضروری اور مطلوبہ سہولتوں سے یکسر عاری سرکاری قرنطینہ مراکز میں ٹھونس دیا جاتا ہے، ان مراکز کا حال یہ ہے کہ ان میں طبی معائنے اور ٹیسٹنگ کی کوئی سہولت موجود ہے اور نہ آئسولیشن کے طبی معیارات اور خوراک و دواو ¿ں کا کوئی مناسب انتظام ہے۔ ایک ایک کمرے میں جتنے سما سکتے ہیں، لوگوں کو لا کر پھینک دیا جاتا ہے اور ان کی انتظامی و طبی دیکھ بھال کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یوں ملک بھر سے مشکل حالات سے گھبرا کر جیسے تیسے گھر لوٹنے والے غریب چترالی شہریوں کو گھر کی دہلیز پر قرنطینہ کے نام پر جبری قید کاٹنا پڑ رہی ہے۔
پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ وبا کو چترال میں پھیلنے سے روکنے کیلئے قرنطینہ ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ بغیر کسی طبی سہولت اور مناسب انتظام کے، نیز میڈیکل گائیڈ لائنز کی دھجیاں اڑا کر لوگوں کو قرنطینہ کے نام پر اجتماعی طور پر محبوس رکھنے سے وبا بھلا کیسے کنٹرول ہوگی؟ اس طریق کار سے کورونا کنٹرول ہوگا یا اب تک اس کے اثرات سے محفوظ لوگوں کو بھی متاثر کرے گا؟ عقل سے عاری چترال کے انتظامی بابوو ¿ں اور ڈی سی بادشاہ کو سمجھنا ہوگا کہ وہ اپنی حماقتوں سے جہاں چترال کو کورونا زدہ کر رہے ہیں، وہاں جھوٹ موٹ کی کارکردگی (efficiency) دکھانے کیلئے انسانی حقوق کی بھی شدید پامالی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
عید سر پر ہے، لوگوں کی بڑی تعداد جن میں بے روزگار ہونے والے پرائیویٹ ملازمین، مشکلات میں گھرے ہوئے اسٹوڈنٹس، عام شہری، بزرگ، خواتین اور بچے شامل ہیں، گھروں کو لوٹنا چاہتی ہے، مگر دوسری طرف قرنطینہ مراکز کے نام پر قائمچترال کی سرکاری اذیت گاہیں بھر چکی ہیں، لوئر چترال کی انتظامیہ نے کچھ مقامی سیاسی لیڈروں کی مشاورت سے اب یہ حکم نکالا ہے کہ جب تک ان اذیت گاہوں میں جگہ خالی نہیں ہوتی، کوئی بھی شخص چترال آنے کی زحمت نہ کرے۔ اس کے علاوہ بھی پورے لاک ڈاو ¿ن کے دوران اسی بات کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی کہ چترال سے باہر چترالی باشندے بھلے کتنی ہی مشکلات میں کیوں نہ گھرے ہوں، وہ چترال اپنے گھر ہرگز نہ آئیں۔ اس کے باوجود مجبوری میں طرح طرح کی صعوبتیں جھیل کر جو لوگ گھروں کا رخ کر تے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں، انہیں شیر گڑھ مردان، مالاکنڈ اور تیمر گرہ سمیت مختلف مقامات پر تنگ کیا جاتا ہے اور انتہائی درشت، سخت، حوصلہ شکن اور تذلیل آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ وہی چترالی باشندے ہیں، جنہیں دہشت گردی کے عروج کے دنوں میں بھی کبھی چیک پوسٹوں پر روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور چترالی ہونے کو ہی پر امن ہونے کی سند سمجھ کر بغیر کسی تفتیش کے جانے دیا جاتا رہا، آج انہی چترالیوں کو کورونا کے نام چترال انتظامیہ کے بابو خود اور ان کی ایما پر دیر اور مردان میں بلا وجہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ چترال انتظامیہ کی ان خود ساختہ پابندیوں کے باعث صورتحال یہ ہے کہ چترال سے باہر چترالی باشندے باجوڑ، مہمند، سوات، دیر غرض پورے صوبے میں ہر جگہ آ جا سکتے ہیں، مگر اپنے گھر نہیں جا سکتے، اپنی ہوم لینڈ نہیں جا سکتے! چترال کی انتظامیہ کو اپنی اس احمقانہ پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی، چترالیوں کو پر امن سمجھ کر نت نئے نادر شاہی احکامات کا کوڑا برسانا بہت نیچ حرکت ہے، ایسے فیصلوں کے پیچھے جو کوئی بھی ہے، و ہ اپنی بے وقوفی کی سند ہی جاری کر رہا ہے….