دادبیداد۔۔سالانہ ترقیاتی پروگرام۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمودخان نے تمام محکموں کو ہدایات جاری کی ہوئی ہیں کہ اگلے سالانہ ترقیاتی پروگرام(ADP)کے لئے سکیموں کی تجاویزبجٹ میں شامل کرنے کے لئے محکمہ خزانہ کو ارسال کریں۔تاکہ ان کی بروقت منصوبہ بندی ہوسکے۔وزیراعلیٰ نے اپنی ہدایات میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا مگراس ہدایت نامے سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ کو صوبے کے طول وعرض سے موجودہ مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کی کوتاہیوں پر رپورٹیں ملی ہونگی وزیراعلیٰ کو یہ رپورٹ بھی ملی ہوگی کہ موجودہ سال کے ترقیاتی پروگرام کا بڑا حصہ کورونا کی عالمگیر وبا سے پہلے ہی مسئلہ بناہوا ہے۔وبا کے آنے کے بعد اس پر مزید اضافہ ہوا۔وزیراعلیٰ کو کس طرح کی رپورٹ دی گئی یہ اندرونی معاملہ ہے اور فی الحال سربستہ رازوں میں سے ایک راز ہے۔تاہم تین باتیں اب راز نہیں رہیں۔پہلی بات یہ ہے کہ صوبے کے7اضلاع میں جوڈیشل کمپلیکس کی عمارتوں کا تعمیراتی کام فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے آگست 2018ء میں روک دیا گیا تھا یہ کام اب تک رکاہوا ہے دوسری بات یہ ہے کہ سوات موٹروے کاکام مکمل ہونے سے پہلے سڑک میں بڑے بڑے کھڈے پڑگئے ہیں اور کام بھی ادھوراہے وجوہات میں ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کیش فلو(Cash flow) یعنی بلوں کی نقد ادائیگی کا بڑا مسئلہ تھا کہ اگست 2018ء سے اب تک سڑکوں،پلوں اور سرکاری عمارتوں کے مینٹینس اینڈ رپئیر کا فنڈ روک دیا گیا تھا اس وجہ سے سڑکوں کی حالت خراب ہے تیسری بات یہ ہے کہ صوبے میں پیڈو کے کئی بجلی گھر زیر تعمیر تھے۔فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے کورونا سے بہت پہلے ان بجلی گھروں پرکام بند ہوا تھا یا دوتہائی کارکنوں اور مشینوں کو فارغ کرکے کام کی رفتار سست کردی گئی تھی ملاکنڈ ڈویژن کے دو بجلی گھرضلع دیر پائین میں کوٹوہائیڈل پاؤر پراجیکٹ 44میگاواٹ اور چترال پائین میں لاوی ہائیڈل پاؤر پراجیکٹ 69میگاواٹ کا تعمیراتی کام فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے متاثر ہوا۔کیش فلو(نقد ادائیگی)بہت بڑا مسئلہ تھا سردست کورونا کی وباء نے ان مسائل پرکسی حد تک پردہ ڈال دیا ہے تاہم کب تک ان پر یہ پردہ اس طرح پڑا رہے گا اور کب تک ہم فلمی گیت سے دو مصرعے مستعار لیکر یہ کہتے رہینگے۔۔۔
پردے میں رہنے دو پردہ نہ اُٹھاؤ
پردہ جو اُٹھ گیا توبھید کھل جائے گا
یہ والی سوات کے زمانے کا ذکر ہے اور بہت مشہور بات ہے راولپنڈی یاپشاور سے سوات جانے والا شخص لنڈا کی پہنچ کر آنکھیں بند کرکے شہادت دیتا تھا کہ سوات آگیا ہے کیونکہ سڑک پر گاڑی کی چال ہموار ہوکر مسافر کو بتاتی تھی کہ والی سوات کی بنائی ہوئی سڑک آگئی۔لواری سرنگ کے راستے سفر کرنے والے سیاحوں نے گذشتہ دوسالوں میں محسوس کیا ہے کہ دیر اور چترال کی طرف سے 30کلومیٹر اپروچ روڈ کی تعمیر کاکام بند ہوچکا ہے۔کنسٹریکٹروں نے مشینری اُٹھالی ہے کیونکہ محکمے کے پاس فنڈ نہیں ہے یہ محکمے کی کوتاہی نہیں بلکہ بجٹ دستاویز میں جاری منصوبہ شامل نہ ہونے کی وجہ سے فنڈ بند ہوا ہے اورفنڈ کی آمدبند ہونے کے بعد کوریا سے آنے والا کنٹریکٹر اپنی مشینری نہیں اُٹھا سکتا۔مقامی کنٹریکٹر اپنی مشینری اُٹھالیتا ہے۔البتہ کوریاسے آنے والے کنٹریکٹر حکومت کے اوپر تاوان ڈالتا رہتا ہے۔فنڈ جاری ہونا اور کیش فلو کا آنا خالصتاًفنی اور تکنیکی مسئلہ ہے اگر جوڈیشل کمپلکس،ہائیڈروپاؤر پراجیکٹ یاکسی وفاقی ٹنل کے اپروچ روڈ یا صوبائی سڑکوں کی مرمت کی جاری فنڈ مالی سال کے بجٹ میں نہ ڈالا گیا ہو تو نقد ادائیگی کس مد سے ہوگی؟یا جاری منصوبے پر کام کس مدسے آگے بڑھے گا؟یہی حال صوبے کی یونیورسٹیوں کاہے ایک طرف پُرانی یونیورسٹیوں کی فنڈ روک دئیے گئے ہیں تودوسری طرف سوات،بونیر اور چترال کی نئی یونیورسٹیوں کے منصوبے دوسالوں سے ادھورے چھوڑدئیے گئے ہیں پشاور یونیورسٹی اور گومل یونیورسٹی سے لیکر ہزارہ اور ملاکنڈ یونیورسٹی تک ہر دانش گاہ کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے بونیر،چترال اور ایبٹ آباد کی یونیورسٹیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا نام سالانہ ترقیاتی پروگرام سے نکال دیا گیا ہے۔وزیراعلیٰ محمود خان کی ہدایات کانیا حکم نامہ اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قصور متعلقہ اداروں کی طرف سے تجاویز کی فراہمی میں تاخیرکا ہے۔اگر بجٹ دستاویزکی تیاری کے وقت سڑکوں کی تعمیر ومرمت،پن بجلی کے منصوبوں کی ضروریات جاریہ،اور یونیورسٹیوں کی سکیموں کا پورا نقشہ فراہم کیا جاتا ہے تو ان کو سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ڈالنا اور مالی سال کے اندر اخراجات جاریہ کے لئے کیش فلو(Cash flow)کویقینی بنانا ہرگز کوئی مسئلہ نہ ہوتا اُمید کی جانی چاہئیے کہ متعلقہ محکمے ان ہدایات پر عمل کرکے ادھورے منصوبوں کی تکمیل میں تعاون کرینگے۔