دادبیداد۔۔۔زوال کب آیا؟۔۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
زوال کب آیا؟
ہمارے نظام تعلیم،نظام معاشرت اور نظام حکومت کو زوال کب آیا؟ یہ بات سبھی مانتے ہیں کہ زوال آیا ہے مگر اس پر اتفاق نہیں ہوپارہا کہ زوال کب شروع ہوا؟کیسے شروع ہوا؟1947میں بجلی کی سہولت صرف 10فیصد علاقوں میں تھی،موٹر گاڑیوں کی سڑکیں 10فیصد سے بھی کم علاقوں میں دستیاب تھیں سکول اور کالج بہت کم تھے،یونیورسٹیوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔اس کے باوجود تعلیم کا معیاربلند تھا جو مڈل سٹینڈرڈ پاس کرتا تھا اُس کی قابلیت آج کل کے ایم اے پاس سے کئی گنازیادہ تھی انتظامیہ کے افیسرپیدل یاگھوڑوں پر سوارہوکر دور دراز دیہات کے دورے کرتے تھے۔اب زندگی کی تمام سہولیات ہرجگہ دستیاب ہیں۔مگرسرکاری حکام دور دراز دیہات کے دورے نہیں کرتے حالات سے خود کو باخبر نہیں کرتے حال ہی میں حکومت نے1300ڈاکٹر بھرتی کرکے ہسپتالوں میں تعینات کئے ان میں سے125ڈاکٹروں کی پوسٹنگ ایسی ڈسپنسریوں میں ہوئی جن کی عمارتوں کو گرادیا گیا ہے۔عملہ نزدیکی بیسک ہیلتھ یونٹ(بی ایچ یو) کو دیدیا گیا ہے۔اگر سرکاری حکام دورہ کرتے تو ان کے علم میں ضرورہوتا کہ کہاں ڈاکٹر کی ضرورت ہے صوبے میں 400ایسے ہسپتال ہیں جہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے مگر وہاں کسی ڈاکٹرکی پوسٹنگ نہیں ہوتی۔انتخابات اور امتحانات کے لئے سکولوں کی جن عمارتوں کانام منظور کیا جاتا ہے ان میں سے کئی عمارتوں کے دروازے اور کھڑکیاں نہیں ہیں۔کئی عمارتوں میں رائے دہی اور امتحان کے لئے مطلوبہ سہولیات نہیں ہیں۔یہ سہولیات قریبی عمارت میں موجود ہیں مگر موقع پر ایسی عمارت کو تبدیل کرنے کا اختیار فیلڈافیسر کے پاس نہیں اگر ہمارے حکام دورہ کرکے حالات سے خود کو باخبر کرتے تو کام میں آسانی ہوجاتی ایک ہیڈ ماسٹر،لیکچرر یا ڈاکٹر جب ڈیوٹی کے لئے جاتا ہے تو حکام بالا کو بددعائیں دیتا ہے۔مقامی لوگ بھی حیراں ہوتے ہیں کہ حکومت آنکھیں بندکرکے ایسے فیصلے کیوں کرتی ہے؟یہ روبہ زوال قوم کی نشانی ہے میجر بی ای ایم گرڈن نے1892سے1905تک ریاست چترال میں پولٹیکل افیسر کی حیثیت سے کام کیاان کی تین کتابیں گورنمنٹ آف انڈیا پریس کلکتہ سے شائع ہوئیں۔رائل جیوگرافک سوسائیٹی لندن اور رائل ایشیا ٹک سوسائیٹی لندن میں انہوں نے کئی لیکچر دیے۔ان کی ڈائریاں مختلف لائبریریوں میں محفوظ ہیں۔انہوں نے مختلف نالوں اور وادیوں یا چراگاہوں کے دورے کئے۔وہ اپنی ڈائری ساتھ رکھتا تھا۔دن بھر پیدل یا گھوڑے پر پہاڑی پگڈنڈیوں میں سفر کرتا تھا۔رات کو چھوٹے سے خیمے کے اندر موم بتی کی روشنی میں ڈائری لکھتا تھا۔اُس ڈائری میں چراگاہ کی زمینی ساخت اس کا حدود اربعہ بھی لکھا ہے۔اس چراگاہ میں مئی یاستمبر کے مہینے میں جو سبزہ،پھول،درخت وغیرہ اس نے دیکھے ان کی تفصیل لکھی ہے۔جو جانور اور پرندے یا کیڑے مکوڑے سانپ مینڈک وغیرہ دیکھے ان کی بھی تفصیل لکھی ہے۔جڑی بوٹیوں کی تفصیل بھی دی ہوئی ہے۔اُس کے لئے تھکاوٹ کوئی عذر نہیں تھی۔بجلی،پیٹرومکس یالالٹین میسر نہ ہونا کوئی بہانہ نہیں تھا۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آباد علاقے کا دورہ کرنا اس کے فرائض منصبی کا حصہ تھا۔چراگاہوں کی خاک چھاننا اُس کے فرائض میں شامل نہیں تھا یہ اس کا شوق تھا اور برٹش گورنمنٹ اس طرح کے شوق کی حوصلہ افزائی کرتی تھی۔وہ انڈین سول سروس کا افیسرتھا،نباتات،حیوانات،کیمیا،جمادات اور دیگر علوم کا ماہر نہیں تھا پھر بھی وہ ان علوم پر دسترس رکھتا تھا۔اُس کے نوکر،اردلی اور گائیڈ حیراں ہوتے تھے کہ یہ آدمی ہے یاکوئی جن جو دن بھر سفر کرتا ہے،رات بھر لکھتا رہتا ہے۔اسی طرح دوسرے افیسروں کی ڈائریاں ہیں،جارج رابرٹ سن،میجر سمتھ،کپتان نولس،لفٹننٹ فولر،میجر ڈنیٹ،میجر وائٹ اور بے شمار دیگر افیسروں نے سرکاری کاموں کی بخوبی انجام دہی کے ساتھ ساتھ ہمارے پہاڑوں پر،پہاڑی پگڈنڈیوں پر،علاقائی زبانوں پر،علاقائی ثقافت پر کئی کتابیں لکھیں۔1947کے بعد صرف افسیری رہ گئی قلم ٹوٹ گئی۔72سالوں میں صرف ایک نام سامنے آتا ہے کرنل محمد افضل،اور کوئی نام سامنے نہیں آتا۔بد انتظامی کے حوالے سے سینکڑوں نام لوگوں کی زبانوں پر ازبر ہیں۔حسن انتظام کیلئے دوچار سے زیادہ نام ہمارے سامنے نہیں ہیں۔علم وادب کی ابیاری کے حوالے سے آپ ملکی اور صوبائی سطح پر دیکھیں تو فوجی افیسروں میں درجن بھرلوگ لائبریریوں کی زینت بن چکے ہیں۔سول سروس کے افیسروں میں دوچار سے زیادہ نہیں اور دوچار میں بھی اہم نام وہ ہیں جو انڈین سول سروس سے آئے تھے۔کیاوجہ ہے اس تنزلی کی؟بعض دانشور کہتے ہیں کہ سول سروس 1948ہی میں سیاست زدہ ہوگئی۔سیاست کے جراثیم نے اچھے اچھے افیسروں کو کہیں کا نہیں چھوڑابعض مبصرین کا خیال ہے کہ قدردانوں کی کمی واقع ہوئی۔نہ ملک میں رائل ایشیا ٹک سوسائیٹی کی طرح کوئی علمی ساسائیٹی وجود میں آئی نہ ملک میں رائل جیوگرافک سوسائیٹی بن سکی،نہ لکھنے والوں کو قارئین ملنے کی اُمید رہی نہ سامعین ملنے کی آس بن سکی۔دفتروں میں دن بھر خلاصہ نگاری اور خلاصہ بینی سے فراغت نہ ملی،ایک سمری گئی نہ تھی دوسری سمری آئی اور افیسروں نے اسی شغل کو کل جہاں کا نام دیا اگرعبداللہ صاحب قلم اُٹھاتے تو قدرت اللہ شہاب اور صفدر محمود سے کم نہ تھے لیکن لکھنے لکھانے کا وہ علمی اور ادبی ماحول نہ رہا۔یہ بھی 10سال پہلے کی بات ہے۔اب تو سمری سے آگے بڑھ کر پوری باٹ ایک ٹویٹ پر آگئی ہے،آگے بڑی کھائی ہے۔والٹن سے لیکر رورل اکیڈیمی تک تمام تربیتی اداروں کو اس پر غور کرنا چاہیئے کہ زوال کب اور کیسے آیا؟