ان سے درخواست کی گئی تھی وہ خود نہیں آئے تھے،خود آنے والے اور احترام سے، منتوں سے لائے جانے والوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ وہ فرق ”سایورج“ کی تاریخ واضح الفاظ میں بتا رہی ہے۔ ”سایورج“ کی تاریخ کوئی صدیوں پرانی لفاظی پر مشتمل الفاظ کے گورکھ دھندوں کا مجموعہ نہیں بلکہ گزشتہ تین دہائیوں کی زندہ تاریخ ہے۔ جس کا ایک زندہ و تابندہ باب گزشتہ سالوں اپنے حصے کی روشنیاں پھیلانے کے بعد اُس جہاں کے سفر پر روانہ ہوا جہاں سے واپسی کے راستے کسی کو معلوم نہیں۔ وہ شخص تقدیریں بدلنے کا فن جانتا تھا۔ وہ ان تمام اچھے اوصاف سے خالی تھا جن کی وجہ سے ہم لوگ بٹے ہوئے ہیں مثال چترال پہنچتے ہی انہوں نے قائم کردی تھی۔ اس کافر نے سکول کے لئے یونیفارم کے طور پر پینٹ شرٹ کا انتخاب کیا مگر جب ”سایورج“ کے سر پر تاج کی باری آئی تو چترالی ثقافتی ٹوپی کو تاج بنا کر بشمول خود سب کے سر پر سجادیا۔ اس سے پہلے چترال میں ”سایورج“ ہزار جتن کے بعد پکڑے جاتے تھے۔ لینگ لینڈ نے چترال میں ”سایورج“ پیدا کرنے کی فیکٹری لگالی۔ پہلے ”سایورج“ صرف صاحب حیثیت خاندان پالا کرتے تھے اس نے ”سایورج“ پالنے کا اتنا سستا اور آسان فارمولا چترالیوں کو سکھایا کہ ہر ریڑھی والے، ہر چپڑاسی، ہر دکاندار، بلکہ چترال میں رہنے والے ہر غریب کے گھر میں دو سے تین ”سایورج“ ہر وقت پرورش پانے لگے۔
سایورج پالنے کے لئے صرف ایک شرط رکھی گئی”میرٹ“۔ وہاں لوگوں کی نسلیں نہیں دیکھی جاتی تھیں، نہ ہی رنگ و مذہب کو میرٹ پر فوقیت دی گئی۔ نتیجہ سکول کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا مگر پہلی دہائی کے بعد اس ادارے نے چترالیوں کو اتنی ہمت دی کہ وہ ان پوزیشنوں کے لئے درخواستیں دینے لگے جو صرف امراء کے لئے وقف تھے۔ غریب طبقے کے لوگوں کو جب بولنے کا ڈھنگ سکھایا گیا تو ان حلقوں کو جو صرف بولنے اور سنانے کے عادی تھے پہلی بار خطرے کا احساس ہوا۔ سازشیں ہوئیں مگر سامنے والا بندہ خود میرٹ پر آیا تھا اور میرٹ کو ہی فالو کررہا تھا اس لئے کسی کی نہیں چلی۔ اس نے اس وقت تک میرٹ کے قتل عام کی اجازت کسی کو نہیں دی جب تک زندہ رہے۔ پھر یوں ہوا کہ وہ گزر گئے اور ان کے ساتھ ہی سب کچھ گزر گیا۔
ہم مان لیتے ہیں کہ مس کیری حق پر ہیں اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اساتذہ بھی حق پر ہیں مگر ملکوں میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز ہوتی ہے وہ اتنی بے حس کیسے ہوسکتی ہے کہ ان کی آنکھوں کے سامنے چترال کی تقدیر کے ساتھ کھیلا جارہا ہے اور وہ صرف خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ فیصلہ ہونا چاہئے ہر صورت فیصلہ ہونا چاہئے وہ بھی ثبوتوں کے ساتھ فیصلہ۔ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ اگر مس کیری نے کچھ غلط کیا ہے تو ان کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہئے اگر ساتذہ غلط ہیں تو ان کا کڑا احتساب۔ گنے چنے تعلیمی اداروں کے ساتھ اس طرح کا مذاق کسی بھی سطح پر قابل قبول نہیں ہے۔
آج سایورج تیار کرنے والی فیکٹری کے دروازوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو ایجنٹ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کیا یہ رویہ درست ہے جو لوگ، افراد یا قوم بروقت اپنے اداروں کی بنیادوں سے کھیلنے والوں کا احتساب نہیں کرپاتے، مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کو انگلیوں کے اشاروں سے فریقین میں سے کسی ایک کا ایجنٹ ثابت کرنے کو ہی کام سمجھیں۔ اداروں کو تباہ و برباد کرنے والوں کو کرسی سے اتارنے کے بجائے ایک دوسرے کی عزت اتارنے لگیں۔ ایسے لوگوں کا ”سایورج“ ایک دن مرجاتا ہے۔ ادارے بننے میں صدیاں لگ جاتی ہیں اور ادارے ہی معاشرے میں بہترین افراد پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ہم اداروں کے بجائے افراد کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں اور آخری سانسیں لیتا ہوا ”سایورج“ ہماری بے حسی پر نوحہ کنان ہے۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات