جس گھر میں میری پیدائش ہوئی وہ تنگ کال کوٹھڑی جیسا تھا۔ا س کو میں گھر آنگن کا نام نہیں دے سکتا کیوں کہ جب بڑا ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ گھر آنگن کیا ہوتا ہے۔گھر تو چند کمروں کا نام ہے پھر آگے دالان ہے۔برآمدہ ہے۔صحن ہے۔باورچی خانہ ہے۔پھر اس میں کھانے پینے کی چیزیں ہوتی ہیں۔۔یہ لو چائے پک رہی ہوتی ہے۔یہ گرم روٹیوں کی خوشبو ہے۔۔سالن ہے۔۔برتنوں کی کھنک ہے۔مسکراہٹیں ہیں۔۔ہنسی مذاق ہے۔اب میں سمجھنے لگا کہ یہ زندگی نام کا جوناٹک ہے یہ مسکراہٹوں کا نام ہے۔۔لیکن مجھ جیسوں کے لئے میرے ارد گرد بھی ایسا ہی حال ہے۔۔سہولیات،زندگی کی آسانیاں،رنگیاں،خوبصورتیاں اور لذتیں یا تو کم یا بہت کم ہوتی ہیں۔تب میں اپنے ارد گرد اپنے جیسوں کو سرگردان دیکھتا ہوں۔۔لیکن مجھے باور کرایا جاتا ہے کہ میں ایک آزاد، فلاحی،اسلامی اور جمہوری ملک کا باشندہ ہوں۔میرے حقوق ہیں۔۔مجھے جینے کا حق ہے۔۔مجھے سہولیات چاہئیں۔روٹی،کپڑا،مکان۔۔نعرہ دل پذیر اور آگے اقتدار۔۔ایشائی ٹائیگر بنانے کی اداکاری اور آگے اقتدار۔۔قرض اتارو اور ملک سنوارو۔۔اور آگے اقتدار۔۔۔کشکول توڑینگے۔۔اور آگے اقتدار۔۔چوروں کو پکڑینگے۔۔اور خدا ناخواستہ آگے اقتدار۔۔ہم آپ کے خادم۔آپ کا حق چھین کے لائینگے۔۔اور آگے اقتدار۔۔۔یہ تو مجھے یقین ہے کہ شکر ہے کہ میں ایک آزاد جمہوری اسلامی فلاحی ریاست کا باشندہ ہوں۔۔بانکا بنجارہ،کلموہی،نکٹھو،گمنام،عام عوام۔۔عوام طاقت کا سرچشمہ۔۔اور آگے اقتدار۔۔ میرے کھیل کے دن ہیں مگر کیا کروں ابو کے لئے کھیتوں میں چائے روٹی لے جانا ہے اور ہاتھ بھی بٹانا ہے۔۔گھر میں کھانے کو کچھ نہیں۔۔کھیل کے دن۔۔میری پڑھائی کی عمر ہے۔ سکول کوئی نہیں اگرہے بھی تو وہاں پہ تعلیمی عمل کوئی نہیں۔۔استاد ایک اس کے کام کو دیکھنے والا کوئی نہیں۔۔وہاں پہ جاؤ کھیلو۔۔کھیل بھی مٹی میں۔۔دھول اُٹھے واپس آؤ۔۔گاؤں گاؤں سکول بنائیں گے اور آگے اقتدار۔۔خدا نہ کرے کوئی بیماری لاحق ہو تو پراسٹامول بھی نہ ملے۔۔ ہسپتالو ں کا جال بچھے گا۔۔صحت کی سہولیات اس محروم قوم کو اس کے آنگن میں ملیں گی۔۔اور آگے اقتدار۔۔روڈ نام کی ان پکڈنڈیوں پہ جھولتے جھولتے ہڈیاں چٹخ جائیں گی۔۔پختہ سڑکوں کا جال بچھائیں گے۔۔اور آگے اقتدار۔۔ساری عمر جیب خالی رہے گی۔ہاتھ زر سے خالی رہیں گے۔۔روزگار کا تصور نہ ہوگا۔ملک سے بے روزگاری ختم کردی جائے گی ۔۔اور آگے اقتدار۔۔انصاف کا بول بالا ہوگا۔۔مگر لوگ انصاف کو ترسیں گے۔۔اور آگے اقتدار۔چیزیں سستی ہونگی۔۔مگر کوئی کبھی ارزانی نہیں دیکھے گا۔ملک کو بد عنوانی کی لعنت سے نجات دیا جائے گا۔۔وہی اقربا پروری،وہی رشوت وہی محرومیاں، مقہوریاں اور مایوسیاں۔۔اور آگے اقتدار۔۔اقتدار حاصل کرنے کے بھی کیا گر شر ہیں۔۔ہٹلر نے کہا تھا۔۔کہ عوام کو دلپذیر نعروں سے نادان بنایا جا سکتا ہے۔۔یہ وہی نعرے ہیں۔یہ وہی ایفم ہے۔۔وہی نشہ ہے جو اقتدار حاصل کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔۔میرا نام گوا چا ہے۔۔میں فیصلہ نہیں کر سکا ہوں کہ میں فرزانہ ہوں یا دیوانہ۔۔میں یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی ”حق رائے دہی“ استعمال کرتا ہوں حالانکہ اس سمے دل کہتا ہے۔۔کہ سوچ سمجھ کر۔۔احتیاط سے۔۔میرا نام گواچا۔۔میں احتیاط وحتیاط کچھ نہیں کرتا۔۔میں نے ووٹ دیا آگے ووٹ والے اقتدار کے مزے اڑائیں موج مستی کریں میرا کیا۔۔لیکن مجھے بتایا جاتا رہا ہے۔۔کہ یہ ملک آپ کا ہے۔۔اس کی ترقی اور خوشحالی میں تیرا حصہ ہونا چاہیے۔۔اور تیرا حق بھی۔۔دوسرا قہقہا لگائے تو تم مسکراؤ تو سہی۔۔تو زارو قطار روئے تو کم از کم دوسرا رونی صورت بنائے۔کیونکہ غمی خوشی میں تم دونوں سانجی ہو۔۔مگر کیا کروں میرے حصے میں محرومیاں اور آنسو ہیں دوسروں کے حصے میں قہقہے ہیں۔اگر میری اس پاک دھرتی پہ کوئی قربان ہوتا ہے تو میں چیخ اٹھتا ہوں۔۔۔۔۔دوسرے صرف الفاظ کا سہارا لیتے ہیں ا ور ”سر فروش“ کہہ کر خاموش ہوتے ہیں۔۔اس دھرتی کا یوم آزادی کا دن آتا ہے تو میں سر بہ سجود ہوتاہوں دوسرے کسی فنکشن میں شان کے ساتھ جا کر مصنوعی خلوص کا اظہا ر کرتے ہیں۔۔ان کی بے خلوصی اور موج مستی میں فرق نہیں آتا۔۔میرا نام گواچا۔۔میں سمجھدار ہوگیا ہوں۔۔میں یوں بولتا رہوں گا۔۔تورکہو روڈ میں خورد برد ہوا ہے کئی سالوں سے قوم کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے۔۔کلاش ویلیز کے لئے روڈ بنانے کے خواب دیکھائے جارہے ہیں۔۔ٹاؤن چترال میں بجلی نہیں۔پانی نہیں۔لوگ عذاب سہہ رہے ہیں۔۔ہسپتالوں سے وہ تبدیلی پھر سے غائب ہو گئی ہے کیونکہ آگے اقتدار تھا۔۔عدالتیں بھی کلمو کلمو ہیں۔استاد بھی اسی طرح دھوپ سینگ رہا ہے۔۔دفتروں میں ”بوم“ کا بسیرا ہے یا ”ہما“ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔۔گولین میں قدرتی آفت آئی اگر ہم زندہ ہوتے تو راتوں رات سڑک بھی بنتی اور پانی کی ترسیل بھی بحال ہوتی۔۔ایسا نہیں ہوتا۔۔میں سب کچھ سمجھتا ہوں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔۔میرا مقام کیا ہے۔۔میں دریائے فرات کے کنارے پڑا پیاسا کتا بھی ہوتا تو کوئی میری خبر لیتا۔۔لیکن میری خبر لینے کے لیے بھی میرے آقاؤں میں ایسی صلاحیت اور خلوص ہو نا چاہیے۔۔بس مجھے میرے نام کا پتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرانام گواچا۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات