”مو جودہ حکومت“ کے دو الفاظ جا دوئی اثر رکھتے ہیں خصوصاً پرنٹ اور الیکٹر انک میڈیا میں ان دو الفاظ کی دھوم مچی ہوئی ہے بلکہ ان الفاظ کا ڈنکا بج رہا ہے ایک بڑی یو نیورسٹی میں میڈیا ور کشاپ تھا شعبہ صحا فت کے سنیئر استاد لیکچر دے رہے تھے اور جا بر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کے فضا ئل بیان کررہے تھے جب سوال و جواب کا مر حلہ آیا تو ایک طالب علم نے سوال کیا جب میڈیا پا بند یوں کی زد میں ہو تو عوامی مسائل اور سما جی امور پر کس انداز اور اسلوب میں بات کی جائے گی جو حسب حال اور منا سب ہو؟ پر فیسر نے تھو ڑا توقف اور تامل کیا پھر اُس نے کہا دو الفاظ ہیں ان کا سہارا لیکر بات کی جا سکتی ہے ایک لفظ ہے مو جودہ دوسرا لفظ ہے حکومت،آپ دو نوں کو ملائیں تو مو جو دہ حکومت کی تر کیب بنتی ہے آپ صحت کے مسائل کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرا نا چاہتے ہیں غلطیوں اور نا انصا فیوں کا ذکر نہیں کیا جا سکتا پابندیاں بہت سخت ہیں آپ کا اسلوب تخلیقی نو عیت کا ہو گا مثلاً بڑے ہسپتال میں لیبارٹری سہولیات جواب دے گئی ہیں،ایکسرے ڈیپارٹمنٹ کے پاس فلمیں دستیاب نہیں ایم آر آئی مشین دو مہینوں سے خراب ہے آپ ان چیزوں کا ذکر نئے اسلوب میں یوں کرینگے ”مو جودہ حکومت نے لو گوں کو گھر کی دہلیز پر صحت کی بنیادی سہو لیات فراہم کرنے کے وعدے کو پورا کیا ہے وزیر صحت نے ایک بیان میں کہاہے کہ مو جودہ حکومت ہسپتال میں ایم آر آئی، ایکسیرے اور لیبارٹری کی تمام ضروریات پوری کریگی مریضوں کو کسی بھی سہو لت کے حصول کے لئے پرائیویٹ ہسپتال یا کلینک جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی یہ مو جودہ حکومت کا وژن ہے“ گو یا میڈیا کا بھی ایک آرٹ ہوتا ہے کسی باد شاہ کا واقعہ مشہور ہے باد شاہ ایک ٹانگ سے لنگڑا تھا اور ایک آنکھ سے کا نا،اس نے حکم دیا کہ جو مصور میری خوبصو رت تصویر بنائے گا اسکو منہ مانگے انعام سے نوا زا جا ئے گا مصور وں نے ہر داؤ ازمایا لیکن کوئی داؤ کام نہ آ یا کاناآنکھ کا نا ہی رہا لنگڑی ٹانگ ویسی کی ویسی لنگڑی رہی، تا ہم ایک نو عمر مصور کی تصویر دیکھ کر باد شاہ دنگ رہ گیا پوری باد شاہت میں اس تصویر کو گھمانے کا حکم دیا اور مصور کو منہ مانگے انعامات زروجواہر، لعل اشرفی دیکر رخصت کیا تصویر میں باد شاہ کو ایک ٹانگ کو سامنے پھیلا کر دوسری ٹانگ پر بیٹھے ہوئے بندوق سے کسی شکا ر کا نشانہ لیتے ہوئے دکھا یا گیا تھا بیٹھنے کی حا لت میں ٹانگ کا لنگڑ ا پن پردے میں رہا اور نشانہ لیتے ہوئے ایک آنکھ کو بند دکھا یا گیا یوں اُس کی آنکھ میں کانا پن نظر نہیں آرہا تھا مبارک صادق نے کیا بات کہی ؎
خیال اپنا مزاج اپنا پسند اپنی کمال کیا ہے!
جو یار چاہے وہ حال اپنا بنا کے رکھنا کمال یہ ہے
1969ء میں ہم دسویں جما عت میں پڑھتے تھے ہمارے سکول میں تاریخ کا استاد بہت طرح دار اور ہر دلعزیز آدمی تھا وہ عبارت پڑھنے پر لیکچر کوتر جیح دیتا تھا طلباء سے کہتا تھا کہ رٹہ مت لگاؤ، تصّورات کو دل میں بٹھا ؤ، پھر اپنے الفاظ میں لکھو ہمارے استاد کی مثا لیں بہت دلچسپ ہوا کرتی تھیں مثلاً ایک مثال یہ تھی کہ کافر، سکھ، ہندو یا عسیا ئی باد شاہ پر سوال آجائے تو جواب میں لکھو کہ وہ ظا لم تھا رعا یا پر ظلم کر تا تھا لو گ اس کو پسند نہیں کرتے تھے اس کے اہلکار اور وزراء، در باری سب بد عنوان تھے رشوت لیتے تھے لو گوں کا حق مار تے تھے اور اگر مسلمان باد شاہ کے بارے میں سوال پو چھا جائے تو جواب میں لکھو کہ وہ بہت ہر دلعزیز تھا اس کا عدل و انصاف دور دور تک مشہور تھا وہ مسا فروں کے لئے سرائیں تعمیر کر تا تھا کنویں نکا لتا تھا اس کے دروازے پر عدل کی زنجیر تھی اس زنجیر کو ہلا کر فر یاد ی کسی بھی وقت باد شاہ کے در بار میں اپنی فر یاد لیکر پہنچ جا تا تھا رعایا اس کے انصاف سے بہت خوش تھی اور ہر وقت باد شاہ کو دعائیں دیتی تھی، آج کل میڈیا کے لئے بھی خبر نگاری کا یہی معیار ہے اگر سابقہ حکومت کا ذکر آئے تو جتنی برائیاں تمہیں یاد ہیں سب اُس کے کھا تے میں لکھدو جب مو جو دہ حکومت کے بارے میں سوال آئے تو دنیا جہاں کی ڈکشنریوں میں خوبیاں ڈھونڈو، نیکیاں ڈھونڈو اور مو جودہ حکومت کے کھاتے میں ڈال دو یہ تیر بہدف نسخہ ہے یا وش بخیر؛ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دن اخبارات کے دفتروں میں ہلچل مچ گئی تھی رات 10بجے کا وقت تھا خبریں لگائی گئیں ادارتی صفحے خا لی چھوڑ دیئے گئے اکثر اخبارات نے سفید ورق شائع کئے ایک اخبار کا ادارتی صفحہَ من وعَن شائع ہوا کیونکہ اخبار نے التزام کے ساتھ بھٹو کا نا م،قائد عوام، فخر ایشیا اور دیگر القابات کے ساتھ شائع کرنے سے احتراز کیا تھا 4جو لائی 1977والی حکومت کی خو بیوں کو ”مو جودہ حکومت“کہہ کر اجا گر کیا تھا جو 5جو لائی 1977والی حکومت پر بھی صادق آتی تھیں چنا نچہ پورے کا پورا صفحہ شائع ہوا چنانچہ آپ چاہتے ہیں کہ سنسر کے زمانے میں آپ کی خبر اور آپ کا تجزیہ کسی کا نٹ چھا نٹ کے بغیر شائع ہو تو براہ کرم یوں کیجئے کہ ہر اچھے کام کو ”مو جودہ حکومت“ سے منسوب کیجئے یہ ایسا بہتر بہدف نسخہ ہے کہ آپ کی کوئی بھی تحریر سنسر کی زد میں نہیں آئے گی شاعر کہتا ہے ؎
خزاں کی رُت میں گلاب چہرہ بناکے رکھنا کمال یہ ہے
ہوا کی زد پہ دیا جلانا،اور جلا کے رکھنا کمال یہ ہے
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات