دھڑکنوں کی زبان۔۔ہم شندور جائیں گے۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

ہم شندور جائیں گے۔ہم چوگان بازی دیکھنے جائیں گے۔گھوڑے مستی میں چلانچیں مارئینگے۔گھوڑ سوار اپنی شاہسواری کا مظاہرہ کریں گے۔۔دیکھنے والا صرف دور سے دیکھے گا۔اس کوا تنا پتہ ہوگا کہ کس نے جیتا کس نے ہارا۔اس کی آنکھوں کے سامنے کھیل ہورہاہوگا۔ اگر امیر زادہ اچھا کھیلے گاتو شاباش دے گا اگر نہ کھیلے گا تو ملامت کرے گا۔ اگر شہزادہ نہ کھیل سکے گا تو اس کو برا بھلاکہے گا۔اگر اچھا کھیلے گا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں گی۔اس کو ان چھ بندوں میں کوئی نظر نہیں آئے گا کہ وہ لوئر چترال کا ہے یا اپر چترال کا۔۔اس کے سامنے چترال کا تعارف صرف چترال ہی ہے۔اس کے دل میں ابھی چترال تقسیم نہیں ہوا نہ کبھی ہوگا۔ کیونکہ چترال اس کا دل ہے دل دو تکڑا نہیں ہوسکتا۔اس کی آنکھیں یہ اندازا لگانے سے قاصر ہونگی کہ کون امیر زادہ ہے کون غریب زادہ۔جو شاہ سوار ہے وہ اس کی آنکھوں کا تارا ہے۔یہ بڑوں کا کام ہے کہ کھیل کو آنا سمجھیں۔صلاحیت کو سیاست سمجھیں۔ننگ و ناموس کوعلاقیت سمجھیں۔ہم شندور جائیں گے۔ہم”چترالی“ ہیں۔ہمیں چوگان بازی دیکھنی ہے۔مظفر علی خان نے اچھا کھیلا۔۔ہماری آنکھوں کا تارہ تھا۔مقبول علی خان کھیلتا تھا۔ہماے دل دھڑکتے تھے۔شہزادہ سکندر مرد میدان ہے تو ہمیں اس سے پیار ہے۔اب نوجوان کھیل رہے ہیں۔ہماری پہچان ہیں۔ہمارے دیکھنے کو کھیل چاہیے۔ہمیں اپنے انتظامیہ،اپنے بڑوں اور اپنے کھیلاڑیوں سے گزارش ہے۔کہ ہماری آرزوؤں پہ نہ پانی پھیر دیں۔ہمارا کوئی کھیلاڑی اپنے کھیل کوکمزور سمجھے گا۔اپنی عمرکو ڈھلتی سمجھے گا تو خود گراؤنڈ میں اعلان کرے گا کہ ”میری آخری باری تھی دوستو!“ وہ پھر کھیل کی تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔۔وہ حقیقی ہیروہو گا۔تاریخ اس کو یاد رکھے گی۔اتنی جرات ہم چترالیوں میں شاید ہے۔۔اگر نہیں ہے تو پیدا کرنا ہوگا۔۔کھیلوں کے اس بادشاہ کو کھیلوں کا بادشاہ ہی رہنے دیا جائے۔اور بادشاہوں کے کھیل کو بادشاہوں کا کھیل رہنے دیا جائے۔ہم شندور جائینگے تو پولو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی چترالیت ساتھ لے کے جائینگے۔ہماری شرافت ہمارے ساتھ ہو گی۔ہمارا احترام ہمارے ساتھ ہوگا۔ہماری ایثار و قربانی ہمارے ساتھ ہوگی۔ہم سچے کھرے چترالی نظر آئینگے۔راہ چلتے ہمیں کوئی بٹوہ ملے گا اس کو اٹھائیں گے اور اس کے مالک کو دیوانہ وار ڈھونٹتے پھریں گے۔اس کو ڈھونڈ نکالیں گے۔بٹوہ اس کو حوالہ کرینگے وہ ہمارا شکریہ ادا کرے گا اور ساری زندگی ہماری چترالیت یاد رکھے گا۔ہمیں کوئی بچہ ملے گا جو راستہ بھول چکا ہوگا۔ہم اس کو کندھوں پہ اٹھائینگے۔اس کے بڑوں سے ملائینگے۔ہمیں بوڑھا ملے گا۔ہم اپنی سیٹ اس کو دے کر خود کھڑا رینگے۔کوئی پیاسا ہوگا دوڑ کر اس کے سامنے گلاس میں پانی لا حاضر کرئینگے۔سامنے سے کوئی سیاح آیئے گا کچھ پوچھے گا ہنس کر اس کو جواب دینگے۔راستہ بھولا ہوگا اس کو راستہ بتائینگے۔ساتھیوں کو ڈھونڈ رہا ہوگا اس کو اس کے ساتھیوں تک پہنچائینگے۔کوئی ہاتھ ملائے گا تو اس کوسینے سے ملائینگے۔ہماری آواز اونچی نہیں ہوگی۔۔ہمارے چہروں پرمسکراہٹ ہوگی۔ہمارے الفاظ شرین ہونگے۔ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک انجمن ہوگا۔ایک کھلی کتاب۔۔اس کتاب کا نام ”چترال“ ہوگا۔ہر کوئی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اور واپس جا کر کہے گا کہ”اچھی کتاب ہے“۔۔پڑھنے کی چیز ہے۔شندور کا پولو گراونڈ ہی دنیا کا بلند ترین پولو گراونڈ نہیں تصور ہوگا۔بلکہ اس کے علاقے کے رہنے والے بھی کردار اور اخلاق کے لحاظ سے بلند ترین سطح پر مانے جائینگے۔ہم شندور جائینگے تو یہ سب کچھ سب کو پڑھانے جائینگے۔تہذیب کا سبق۔۔شرافت اور انسانیت کا سبق۔۔امن و سکون کاسبق۔ہم ہر د ل میں محبت کا بیج بو کے آئینگے۔ہم سارے دل جیت کے آئینگے۔سار ی محبتیں سمیٹ کے آئینگے۔اپنی پہچان بنا کے آئینگے۔شندور ہماری پہچان ہے۔یہی میدان ہے جہان پر ہماری اصلیت دنیا کے سامنے ہوتی ہے۔ہمارا تعارف ہو تا ہے۔۔ہمارے بارے میں رائے قائم کی جاتی ہے۔شندور سے ہماری یادیں وابستہ ہیں۔یہ پکڈنڈیاں ہماری تاریخ دھراتی ہیں۔ہمارے اسلاف سے ہمارا تعارف کراتے ہیں۔یہ پکڈنڈیاں ہمارے تاریخی گواہ ہیں۔یہ ہماری کامیابیوں کے گواہ ہیں۔۔یہ ہماری تکالیف کے گواہ ہیں۔یہ جہاد آزدی کشمیر کے گواہ ہیں۔یہ ڈوگہ راجاؤں پریلغار کے گواہ ہیں۔یہ زمانے کی تغیرات دیکھے ہوئے ہیں۔۔ہم شندور انہی راستوں سے ہوتے ہوئے جائینگے۔محبت کا پیام لے کے جائینگے اور محبت سمیٹ لائینگے۔۔۔