دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک۔۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
شمع اپنے والدین کی اُکلوتی بچی تھی۔۔پرورش نازو نعم سے ہو رہی تھی۔۔گھر کی شہزادی تھی۔۔اس کی آنکھوں میں اُتری معصومیت ماں باپ کو پگھلا کے رکھ دیتی۔۔والدین اس پہ جان نچھاور کر دیتے۔۔گھر کے سارے افراد کی آنکھوں کا تارہ تھی۔۔گھرانہ اسودہ تھا۔۔ماں باپ دونوں سروس میں تھے۔۔اس کی پرورش میں باپ سے زیادہ ماں کا حصہ تھا۔۔ماں ٹیچر تھی اس لئے اس کو اپنے سکول میں اپنے ساتھ رکھی تھی۔۔کہیں کوئی کہہ نہ دے کہ گورنمنٹ کی ٹیچر اپنے بچوں کی تعلیم نجی سکولوں میں دلوالتی ہے۔۔ماں عضب کی رخم دل تھی۔۔غریبوں کو دیکھ کر تڑپ اٹھتی۔۔شمع دیکھتی کہ اس کے گھر میں جب ضرورت مند آتے تو ماں کچھ چیزیں ابو کے سامنے ان کو دیتیں کچھ ابو سے چھپا کر شمع کے ہاتھوں دلواتی۔اور شمع سے کہتی۔۔بیٹا۔یہ تمہیں دعا دے گی۔۔شمع کو یوں لگتی کہ یہ دعا کو ئی گفٹ ہے۔۔کہ میری ماں بھی کیا عجیب ہے خود اس بیچارے کے پاس کچھ نہیں یہ مجھے کیادعا دے سکتی ہے۔۔شمع کے ناز میں شائستگی شامل ہوتی گئی۔۔آخر اس کو یقین سا ہوگیا کہ اصل خوشی دوسروں کو خوش کرنے میں ہے۔۔ماں کا یہ جملہ اس کی زندگی کا حصہ بن گیا تھا۔۔وہ روز جب بستہ اٹھا کے سکول کے لئے روانہ ہوتی تو اس کی متلاشی نگا ہیں راہ چلتے غریبوں کو دیکھتی رہتیں۔۔کوئی پرانی چادر اوڑھے کا م پہ جا رہا ہے۔۔کوئی تیشہ ؎ رندہ اُٹھایا ہوا ہے۔۔کوئی ریڑھا باندھا ہوا ہے۔۔اپنی فکر معاش میں ڈوباافسردہ اسردہ جا رہا ہے۔۔شمع کی متلاشی نگاہیں ان کے کپڑوں،پھٹے جوتوں اور افسردہ چہروں کا نظارہ کرتیں۔۔شمع تڑپ اٹھتی۔۔ان کے پاس یہ سب کچھ کیوں نہیں یہ شمع کے لئے ایک سوال تھا کیونکہ اس کوزندگی کی بوقلمونیوں کا اندازہ نہ تھا۔۔وہ اب ساتویں کلاس میں تھیں۔۔کلاس میں بھاند بھاند کی بچیاں تھیں۔غریب امیر،شریف شریر،لایق نالائق۔۔شمع خود قابل تھی۔کلاس کی ہر بچی اس کے پاس میں بیٹھنے کو ترستی۔۔مگر وہ کلاس کی سب سے آفسردہ بچی روحی کے پاس بیٹھتی۔۔اس کی آنکھوں میں ڈووب سی جاتی۔۔اس سے باتیں کرنے کو ترستی۔۔اس سے کرید کرید کے پوچھتی کہ اس نے آج ناشتہ میں کیا کھائی ہے۔۔اس کے سکول کے کپڑے پرانے ہوگئے ہیں نیا کیوں نہیں خریدتی۔۔اس کے جوتے پرانے ہوگئے ہیں نئے کیوں نہیں لیتی۔۔روحی ادھر ادھر کی باتیں کرتی۔۔اس کی ان باتوں سے روحی کو شرم آتی مزید آفسردہ ہو جاتی اس لئے اکثر اس کے پاس بیٹھنے سے کتراتی۔۔پتہ نہیں روحی شمع کی مجبوری بن گئی تھی۔۔وہ اس کے بے غیر نہیں رہ سکتی تھی۔۔ہرروز اس کے سراپا کو دیکھتی۔اس کی آکھیوں میں ڈوب جاتی کھانے کو کچھ لے جاتی اور روحی کو کھاتی دیکھتی تو اس کو اطمنان ہوتا۔۔کوئی پنسل با ل پائنٹ دے دیتی کہ اس کے پاس اور ہے۔۔اس بار عید کے لئے بڑی مشکل سے اس کو منا گئی تھی کہ”ہم اس عید کے لئے ایک جیسے کپڑے بنائینگے“۔۔روحی ہنس کر خاموش ہوگئی تھی۔۔اب عید کے لئے صرف پانچ دن رہ گئے تھے۔۔شمع نے روحی سے پوچھا۔تو اس نے بڑی بے زاری سے کہا کہ وہ اس عید کے لئے کپڑے ہی نہیں بنا رہی۔۔پھر لمحے بعد زارو قطار رونی لگی۔۔اس سمے استاد کلا س میں داخل ہوئی تو اس نے سر درد کا بہانہ بنالیا۔۔اس کی ڈانڈ ڈپٹ برداشت کی۔اس کی اس بے بسی پہ شمع رو پڑی۔استاد شمع کے آنسو دیکھ کر پریشان ہوئی۔۔بار بار پوچی تمہیں کیا ہوگیا۔۔شمع خاموش اور گرم آنسووں میں بہتی چلی گئی۔سکول کی چھٹی ہوئی۔۔دوسرے دن شمع نے بڑی مشکل سے روحی کو منایا کہ اس کے ابو نے دوجوڑے کپڑے اور جوتے لائے ہیں ۔۔ایک جوڑا روحی پہنے۔۔روحی بڑی مشکل سے مان گئی۔۔دوسرے دن شمع نے سب سے چھپا کر جوتے بستے میں ٹھونس کر سکول روانہ ہوگئی۔۔اس کو ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا کی بہت بڑی چوری کر رہی ہے۔۔واقعی وہ آج روحی کا دل چرا رہی تھی یہ سب سے بڑی چوری تھی۔۔سکول پہنچ گئی وہ ڈرتے ڈرتے جوتے روحی کو دیدی۔۔روحی چمک کے رہ گئی۔۔آپ کی آمی ناراض تو نہیں ہونگی۔۔آپ کے ابو کوپتہ چلا تو۔۔میرے ابو بہت اچھے ہیں شمع نے چہک کر کہا بڑے فخریہ انداز میں کہا ۔۔روحی کی آنکھوں سے پھر آنسو جاری ہوئے۔۔اس کو اسکے مرحوم ابو یا د آئے۔۔دوسرے دن کپڑے اس طرح جولریاں سب عید کی خریدیاں روحی کو لے دی۔۔عید کی شام آئی۔۔تو شمع کے ابو نے بڑی چاؤ سے شمع کو اپنے پاس بلا کے پوچھا۔۔کہ اپنے سب سامان لا کے مجھے دیکھاؤ میری گڑیا دیکھنا چاہتا ہوں۔۔شمع پیچ وتاب کھا گئی۔۔بہا نہ کیا مگر ابو ماننے والا نہ تھا۔۔آخر کو شمع کو سچ بتانا پڑا۔۔ابو میں یہ سب چیڑ یں اپنے دوست روحی کو لے کے دیدی۔۔کیوں؟۔۔اس کا ابو تڑپ اُٹھا۔۔ابو اس کے پاس کچھ نہیں تھے۔۔اس کے ابو نہیں ہیں۔۔شمع کی آنکھیں چھلک گئیں۔۔اس کے ابو کو اس سمے شمع کا ئنات کی شہزادی لگی۔۔اس نے چیخ کر شمع کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔اس کی ماں دوڑ ے آئی۔۔دونوں نے پھر سے شمع کی داستان سنی۔۔اللہ کا شکر ادا کیا۔۔ابو بازار کی طرف دوڑا۔۔ اپنی گڑیا کو شہزادی بنانے کے کپڑے اور سب کچھ خریدنے کے لئے۔۔اس کائنات میں شمع بھی ہیں۔۔روشنیاں بھی ہیں۔۔محبت بھی ہے۔۔ احترام بھی ہے۔۔صرف احساس کرنے کی ضرورت ہے۔۔شمع کی پرورش کی ضرورت ہے۔۔پھولوں کو سینچنے کی ضرورت ہے۔۔ان کی سانسوں میں احترام کی خوشبو بھرنے کی ضرورت ہے۔۔ان کو انسانوں سے محبت کرنے کا مشق کرانا ہے۔۔ان کو سمجھانا ہے کہ سب انسان ہیں غریبی قصور نہیں۔۔امیری کوئی صلاحیت نہیں۔۔زندگی کانٹوں اور پھولوں کا مجموعہ ہے۔۔جتنا پھولوں کی خوشبو محسوس کرو اتنا کانٹوں کا چھپن محسوس کرو۔۔ یہی اصل تعلیم و تربیت۔۔یہی فخر موجودات ﷺ کا لایا ہو طریقہ ہے۔۔۔ہر شمع کو یہ شغر زبانی یاد کراؤ۔۔۔
درد دل کے واسطے پید ا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیان