صدا بصحرا۔۔جبتک اور بشرطیکہ۔۔ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Print Friendly, PDF & Email

”جبتک“ا ور ”بشترطیکہ“ ایسے الفاظ ہیں جو جملے کو دو دھاری تلوار بنا دیتے ہیں۔ ان الفاظ کو جملوں میں نزاکت اور لطافت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک عدالتی بنچ کی کاروائی کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے محتاط الفاظ میں کہا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں گے جبتک الیکشن کمیشن کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو اس میں تاخیر نہیں ہوگی یہاں ”جبتک“ نے پورے جملے کا مفہوم بدل دیا۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہا ہے الیکشن 25جولائی کو ہونگے ”بشرطیکہ“ امن و امان کی صورت خراب نہ ہو۔ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کا بیان آگیا کہ الیکشن مقررہ تاریخ کو ہونگے ”جبتک“ حالات خراب نہ ہوں اس میں ردّو بدل نہیں ہوگا۔ پاک آرمی کے افسر تعلقات عامہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا ہے کہ 2018الیکشن کا سال، تبدیلی کا سال ہے۔ یار لوگوں نے جبتک کو تبدیلی کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ ”تبدیلی“ آنے کا یقین دلایا جائے تو الیکشن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوگی اس پر ایک ستم ظریف نے گرہ لگاتے ہوئے کہا ہے کہ تبدیلی آنہیں رہی بلکہ ”تبدیلی جارہی ہے“۔ مجھے محکمہ تعلیم کے ایک بڑ ے افیسر کی طرف سے ایک بڑے ہائی سکول کا اچانک معائنہ اور لاگ بُک میں لکھے گئے جامع اور بصیرت افروز تاثرات یا د آرہے ہیں۔ حاکم بالا سکول میں فروکش ہوئے تو انہیں ایک پیالی چائے کے بعد کلاسوں کا معائنہ کرایا گیا۔ پھر ریکارڈ چیک کرنے کی باری آئی اس کے بعد انہوں نے لاگ بُک منگوایا پرنسپل نے کھانے کا نہیں پوچھا تھا۔ تحفے تحائف گاڑی میں نہیں رکھوائے تھے حاکم مجاز نے لاگ بُک کا نصف ورق سکو ل کے منفی پہلوؤں پر سیاہ کر ڈالا، صفائی کا انتظام ناقص، کلاسوں کی حالت ناگفتہ بہ، تعلیم و تدریس کا نظام خراب اور دیگر امور، دفتری ریکارڈ وغیرہ برباد پرنسپل صاحب نے اتنے میں حاکم مجاز کی خدمت میں عرض کیا کہ کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے حاکم مجاز نے تجویز مان لی، کھانے میں مرغ مسلم، بکرے کی ران، مچھلی کا روسٹ اور نہ جانے کون کون سی نعمتیں رکھی تھیں۔ حاکم مجاز نے مزے سے ظہرانہ تناول کیا اس کے بعد تحائف کے پیکٹ اُن کی خدمت میں پیش کئے گئے اب حاکم مجاز کو لاگ بک یاد آیا۔ انہوں نے کرسی پر بیٹھ کر سلسلہ جہاں ٹوٹا تھا وہیں سے شروع کیا اور ”تھا“ لکھ کر آخری جملہ مکمل کر کے نیا پیراگراف لیا۔ ”بہرحال“ (However) سے نئے پیراگراف کا آغاز کرتے ہوئے لکھا بہر حال موجودہ پرنسپل کے آنے کے بعد سکول کی حالت میں ”بڑی تبدیلی“ آئی ہے۔ یہاں سے تبدیلی سرکار کی مدح سرائی شروع ہوئی اور سکول کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ لاگ بک کا وہ صفحہ قومی عجائب گھر میں رکھنے کے لائق ہے کیونکہ یہ ہمارے قومی شعور، قومی مزاج اور قومی دستور العمل کا حصہ ہے۔ ہم ”جبتک“ بشرطیکہ اور بہرحال سے پورے صفحے کا مفہوم الٹ دیتے ہیں۔ اگر ملک میں گرمی اور حبس کے موسم کا راج ہے تاہم 25جولائی 2018ء کو ہونے والے قومی انتخابات پر وہم، شکوک اور بے یقینی کے کالے بادل منڈلا رہے ہیں۔ جس مقصد کیلئے انتخابات کرائے جارہے ہیں وہ مقصد بڑا واضح ہے۔ سب کو معلوم ہے الف بے کو بھگانا ہے جیم دال کو گھسیٹ لانا ہے اگر رائے عامہ کے جائزے اس مقصد کے بر عکس آگئے۔ اگر خفیہ اداروں کی رپورٹوں میں مقصد حاصل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا تو انتخابات نہیں ہوں گے۔ جب مقصد ہاتھ نہیں آرہا تو انتخابات کا کیا فائدہ ہے؟ خواہ مخواہ کی سر دردی کون مول لے! میرے دوست پروفیسر شمس النظر فاطمی مجھے ٹوکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ 10 کروڑ ووٹروں نے 22 کروڑ عوام کے نمائندوں کو منتخب کرنا ہے نمائندے جیسے بھی ہوں، جو بھی ہوں عوام کی مرضی ہے۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ میں ان کو باور کراتا ہوں کہ جس طرح سوڈان میں رنگ کا کالا ہونا حسن ہے۔ سپین میں گورا ہونا حسن ہے۔ ایشیا میں سانولا ہونا حسن ہے۔ بالکل اسی طرح جمہوریت کا حسن بھی پوری دنیا میں ایک جیسا نہیں ہوتا۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت میں عوام کا نمائندہ ہونا جمہوریت کا حسن ہے۔ پاکستان میں ”اُن کا پسندیدہ“ ہونا جمہوریت کا حسن ہے۔ بھٹو، بے نظیر اورنواز شریف عوام کے منتخب نمائندے تھے مگر ”اُن کے پسندیدہ“ نہیں تھے۔ اس لئے حکومت نہ کرسکے بعض جان سے گئے بعض دفتر سے ایسے نکالے گئے جیسے مرزا کوئے یار سے نکالے گئے تھے ؎
نکلنا خُلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
اس لئے ہمارے حکمران طبقے کے مفتدر لوگ جب 25جولائی کے انتخابات کا نام لیکر جبتک، بشرطیکہ اور بہرحال لگاکر جملے کو موڑ دیتے ہیں۔ مفہوم بدل دیتے ہیں تو اس کی وجوہات بھی ہیں۔ اب ہماری نظر یں 25جولائی پر لگی ہوئی ہیں۔25جولائی کو قوم کا نمائندہ منتخب ہوکر آتا ہے یا ”اُن کا پسندیدہ“ آتا ہے۔ ہم تو غالب کی طرح مکتبِ غم ِ دل کے طالب علم ہیں ؎
لیتا ہوں مکتب ِ غم ِدل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ ”رفت“ گیا اور ”بود“ تھا