ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھر پر دو سرکاری گاڑیوں کو چترال سے 2300کلو میٹر دور سندھ لے جانے اور عزیزو اقارب کے استعمال میں لانے کا فوری نوٹس لیا جائے۔چیرمین ہیومن رائٹس نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ

Print Friendly, PDF & Email

چترال (نمایندہ چترال میل) چیرمین ہیومن رائٹس فاونڈیشن چترال نیاز اے نیازی ایڈوکیٹ اور پروفیسر محمددوست نے چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ، وزیر اعلی خیبر پختونخوا جسٹس (ر) دوست محمد خان اور چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا اعظم خان سے مطالبہ کیا ہے۔ کہ ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سدھر پر دو سرکاری گاڑیوں کو چترال سے 2300کلو میٹر دور سندھ لے جانے اور عزیزو اقارب کے استعمال میں لانے کا فوری نوٹس لیا جائے ۔ شفاف انکوائری کیلئے ڈپٹی کمشنر کو فوری طور پر معطل کیا جائے۔ اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کی کڑی سزا دی جائے۔ تاکہ یہ دوسرے اداروں کیلئے بھی ایک مثال بن جائے۔ جو عوام کے ٹیکسوں پر سرکاری ضرورتوں کیلئے خریدے گئے گاڑیوں کووراثت کا مال سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں ۔ چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا۔ کہ ڈپٹی کمشنر چترال کو ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے ملازمین سے باز پارس کرنے کا پورا اختیار ہے۔ لیکن اُنہیں ڈپٹی کمشنر آفس چترال کی بجائے 2300 کلومیٹر دور اپنے گھر میں بغیر رہائشی سہولیات کے رکھنے اور سرکاری گاڑیوں کو استعمال کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اور یہ بدترین کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ ایگزیکٹیو پوسٹ پر بیٹھا آفیسر احتساب، قانون کی حکمرانی سے ماورا نہیں ہے جس کا ہر صورت احتساب ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا۔ کہ ڈپٹی کمشنر نے چترال نے اپنے ہی ملازم کو رہائش نہ دے کر انسانی حقوق اور انسانیت کی تذلیل کی۔چترال کے ایک نوجوان کو حیدر آباد میں 55ڈگری سینٹی گریڈ میں رکھنا غلامی کے دور کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا۔ کہ ڈپٹی کمشنر نے اپنے پریس ریلز میں دو گاڑیوں ویگو نمبر A-1200اورA-1169 کی موجودگی کی تردید نہیں کی۔اور اُن کی یہ بات بھی باعث تعجب ہے۔ کہ ڈرائیور منشیات کا عادی تھا۔ اور باوجود بار بار کی تنبیہ کے تیز رفتاری سے باز نہیں آتا تھا۔ اگر یہ بات مان بھی لیا جائے۔ تو کیا ڈپٹی کمشنر چترال کوئی دوسرا ڈرائیور اپنی فیملی کیلئے مقرر نہیں کر سکتا تھا۔ نیاز اے نیازی نے اس بات پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔ کہ ڈرائیور کاشف نے جب ڈپٹی کمشنر چترال کی مبینہ کرپشن حکومتی خزانے کو نقصان پہنچانے کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کیا۔ تو اُن کے والد کے خلاف سرکار ی پیسہ خرد برد کرنے کے الزامات لگائے گئے۔ جو آٹو میکینک کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ کہ ڈی سی آفس میں گاڑیوں کی مرمت کے نام پر پیسے کھائے گئے ہیں۔ تو چیک بُک پر تو ڈی سی چترال کے دستخط ہوتے ہیں۔ ڈرائیور کاشف کے والد نے ڈی سی کے سیف پر تو ڈاکہ نہیں ڈالا۔ انہوں نے کہا۔ کہ جن اصولوں پر چلنے کا تقاضا ڈپٹی کمشنر چترال اپنے ملا زمین سے کرتے ہیں۔ اُن پر خود اُنہیں پہلے کاربند ہو نا چایئے۔ چیرمین ہیومن رائٹس فاونڈیشن نے کہا۔ کہ جو آفیسران باہر سے چترال آکر ڈی سی کے محل میں بیٹھتے ہیں۔ وہ خود کو بادشاہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اور عوام اُن کی نظر میں خس و خشاک کی مانند ہیں۔ اور یہ رویہ چند مفاد پرست کاسہ لیسوں کی وجہ سے ہو تا ہے۔ جو لواری ٹنل پر جاکر پھولوں کا ہاراُنہیں پہنا کر لے آتے ہیں۔ اور یہاں اُن کو شاہوں کا پروٹوکول دیتے ہیں۔ نیازی ایڈوکیٹ نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا۔ کہ اس معاملے کی شفاف انکوائری کیلئے فوری احکامات صادر فرما یا جائے۔ اور اُس وقت تک موجودہ ڈپٹی کمشنر کو معطل کیا جائے۔ تاکہ انکوائری پر اثر انداز نہ ہو۔