وہ کو نسا شاہنشاہ ہے جس کو دیکھنے سے دیکھنے والے کا دل دھڑکتا ہے۔۔وہ کونسا کرشماتی شخصیت ہے جس پہ نظر پڑتے ہی دیکھنے والے کا چہرہ دمک اٹھتا ہے اور لبوں پہ تبسم پھیل جاتی ہے۔۔وہ کونسا مقرر ہے جس کے الفاظ ذھن کی تختی پہ نقش ہو جاتے ہیں۔۔وہ کونسے ہاتھ ہیں جن کو چومنے کو دل کرتا ہے۔۔وہ کونسی آنکھیں ہیں جن میں ڈوبنے کی آرزو ہوتی ہے۔۔وہ کونسا حکم ہے جس کے لئے جان دی جاتی ہے۔۔وہ کونسا نام ہے جو لب پہ آتے ہی نقط زبان کو بوسہ دیتا ہے۔۔وہ کس کی یاد ہے جو سدا تڑپاتی ہے۔۔وہ کونسا شخص ہے جس کے سامنے فخر سے سر جھکایا جاتا ہے۔۔اہل نظر اور اہل دل کو پتہ ہے کہ وہ معلم ہے۔۔ استاد ہے۔۔روحانی باپ ہے۔۔کردار ساز ہے۔۔مربی اور محسن ہے۔۔جس کے احسانات کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔۔یہ انسانیت کے آکاش کا تارا ہے۔۔یہ گلشن انسانیت کا مالی ہے۔۔یہ وہی شخص ہے جس کا احترام کرنا بڑے بڑوں کی مجبوری ہے۔۔یہ ایک حوالہ ہے۔۔یہ خود ایک انجمن ہے۔۔ ایک خوشگوار احساس ہے۔۔یہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔۔یہ ایک سوال ہے کہ معلم کب اس مقام تک پہنچتا ہے۔۔یہ بڑا مشکل سوال ہے۔۔اس مقام تک پہنچنے کے لئے معلم کو ٹوٹنا پڑتا ہے۔۔بکھر جانا پڑتا ہے۔۔ایک پتھر کو گویائی دینا پڑتا ہے۔۔کانٹے کو پھول بنا نا پڑتا ہے۔۔اندھیرے میں چراغ جلانا پڑتا ہے۔۔ایک بندے کی تربیت کرنے میں سب ہارے ہوئے ہوتے ہیں مگر یہ ہمت کرکے آگے بڑھتا ہے۔اور پتھر کو موتی بناتا ہے۔۔ایک نابلد کی انگلیوں کا رشتہ قلم سے جوڑتا ہے۔۔ایک اجنبی کو آشنا بناتا ہے۔۔ایک باغی کو زیر دام لاتا ہے۔۔ایک بے خبر کو خبر دار کرتا ہے۔۔ایک سوئے ہوئے کو زندگی کی جنگ لڑنا سیکھاتا ہے۔۔ایک ہارے ہوئے کی رگوں میں گرم خون بن کر دوڑ تا ہے۔۔ایک ویران نگاہوں میں چمک بن کر اترتا ہے۔۔یہ معلم ہے۔۔یہ قوم کا محسن ہے اس کو اپنے تعارف کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ اس کا گھر کسی کے دل میں ہوتا ہے۔۔یہ محسن قوم علم کا سمندر ہوتا ہے۔۔نالایقی اس کے ساتھ بہت بری لگتی ہے۔۔وہ کردار اور عمل کا بہتا دریا ہوتا ہے۔۔اس کے کپڑے واجبی ہوتے ہیں۔۔اس کی شخصیت میں کوئی مصنوعی نکھار نہیں ہوتا۔۔جن کے کندھوں پہ سٹار ہوتے ہیں جن کے چمکتے جوتوں پہ گرد نہیں جمتا۔۔جن کو اپنی نشست کا خیال ہوتا ہے۔۔جو محفلوں میں ہوبہو کا شمع محفل بننا چاہتا ہے۔۔جو صرف اپنا عہدہ اور اپنی دولت جتانا چاہتا ہے اس کی محفل میں استاد کو اپنی نشست کی بھی پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔اس کے لئے سٹیج پہ کرسی نہیں ہوتی۔وہ عام کرسی میں بیٹھ کر دل ہی دل میں سب پہ ہنستا رہتا ہے۔۔وہ مصنوعی عزت اور احترام پہ کھلکھلاکے ہنستا ہے۔۔وہ اگر انتظامیہ کے کوئی معمولی آفیسر کے دفتر میں بھی جائے تو آفیسر اپنا رعب جمانے کی کوشش کرتا ہے۔۔استاد دل میں ہنستا ہے۔۔۔ کہتا ہے۔۔تو کیا بادشاہ ہے۔۔ بادشاہ وہ ہے جو ان معصوم پھولوں کی اکھیوں میں اترتا ہے اور دلوں پر حکومت کرتا ہے۔۔ڈرائیور کے نزدیک پولیس مین بڑا ادمی ہے کیونکہ ڈرائیور کو اپنے کام سے کام ہے۔۔قصور وار کو استاد سے کیا کام وہ تو ان کے اردگرد بھنبھناتا ہے جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے۔۔وکیل کو اپنی پڑی ہے۔۔وہ استاد کو کب کا بھول چکا ہوتا ہے۔۔ٹھیکدار کا شاید کوئی استاد ہی نہیں ہے۔۔لیکن استاد کو معاشرے سے گلا نہیں کرنا چاہیئے۔۔ یہ نقار خانہ ہے۔۔ ایک بے ہنگم شور۔۔۔ایک بے ربط اجتماع ہے۔۔اس کو اپنا سوچنا چاہئے۔۔ کیونکہ اس کی معمولی غلطی سب کو نظر آتی ہے۔۔اس کی نالایقی زمانہ معاف نہیں کرتا۔۔وہ ہر برائی سے پاک ہو۔۔کیونکہ وہ معاشرے کا آئینہ ہے۔۔وہ قوم بنا رہا ہے۔۔وہ اگر نالایق ہوگا تو قوم نالایق ہوگی۔۔وہ اگر کردار سے عاری ہوگا تو قوم کردار سے محروم ہو گی۔۔اس کی آنکھوں میں صفت شاہینی ہو گی تو قوم میں صفت شاہینی پیدا ہوگی۔۔اس کے پاس اگر چیتے کا جگر ہوگا تو قوم ٹائیگر بن جائے گی۔۔اس کا بازو اگر خنجر اٹھائے گا تو پوری قوم کے ہاتھ میں تلوار ہوگی۔۔وہ اگر خودی کا متوالاہوگا تو قوم خودی کی چٹان بن جائے گی۔۔وہ مسیحا ہے۔۔وہ درد ساز ہے درد کا مداوا ہے۔۔درد محسوس کرتا ہے۔۔اس کا دل سمندر اور زبان برق ہے۔۔اس کے لفظوں سے خوشبو آتی ہے۔۔وہ استاد ہے۔۔اگر ایسا نہیں تو پھر استاد خود فیصلہ کرے کہ وہ کیا ہے؟۔۔جس کو اپنے استاد ہونے پہ فخر ہے تو اس کو اپنا خیال رکھنا ہوگا۔۔ایسا خیال جیسا شیشے کا رکھا جاتا ہے ایسا خیال جیسے آبگینے کا رکھا جاتا ہے۔۔ایسا خیال جیسے محبوب کے دل کا رکھا جاتا ہے کہ کہیں ٹوٹ نہ جائے۔۔استاد معاشرے کا قیدی ہے۔۔ٹوپی ٹیڑھی رکھے تو اور باتیں ہونگیں۔۔ سیدھی رکھے تو اور رائے قایم کیا جائے گا۔۔”استاد کا بڑا مقام ہے“ کہہ کر اس کی جھوٹی دلجوئی کی کوشش کی جائے گی۔۔استاد اس دھوکے میں نہ جائے۔بے عرض،بے طمع،خود دار اور ان اوصاف میں اکیلا ہو۔۔یہی اس کا مقام ہے۔۔کیونکہ اس کا مقام اٹل ہے اور اس کا احترام سچا ہے۔اس کی رسائی روحوں تک ہے۔۔”میں معلم ہوں مجھے اس پہ فخر ہے“ یہ جملہ کہتے ہوئے میں لرزہ بر آندام ہوتا ہوں۔۔میں سراپا سوال بن جاتا ہوں۔۔کیا واقعی میں معلم ہوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات