داد بیداد۔۔بنی گالہ کا طواف۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

ؔ

اخبارات میں دو طرح کی خبریں آرہی ہیں ایک خبر یہ ہے کہ خیبر پختونخوا سے کالجوں کے 7ہزار اساتذہ کرام نے بنی گالہ جاکر مطالبات کے حق میں دھرنا دیا دوسری خبر یہ ہے کہ نوشہرہ،چارسدہ،مردان وغیرہ میں کالجوں کے ہزاروں طلبہ نے اساتذہ کے دھرنے کے خلاف جلوس نکالا اور مطالبہ کیا کہ دھرنا دینے والوں کو گھر بھیجا جائے انہوں نے طلبہ کا قیمتی وقت ضائع کیا ہے اس ماہ کے شروع میں ٹیچنگ اسٹنٹ کیڈر کے 700ملازمین نے بنی گالہ جاکر دھرنا دیا تو عمران خان نے ان کو گریڈ سترہ میں مستقل کرنے کا حکم دے دیا اسمبلی میں ان کی مستقلی کا بل پیش ہوا تو حزب اختلاف کے سردار حسین بابک نے بل کا خیر مقدم کرتے ہوئے جملہ معترضہ میں شکوہ کیا کہ 2014؁ء میں ہم نے ٹیچنگ اسٹنٹ کیڈر کو مستقل کرنے کی تحریک پیش کی تو حکومتی پنچوں نے مخالفت کی تھی 2015؁ء میں اسمبلی کی سٹینڈ نگ کمیٹی میں یہ مسئلہ آیا تو حکومت نے پھر مخالفت کی اب بھی پشاور،مردان،بنوں،ڈی آی خان اور ایبٹ اباد میں مطالبات دہرائے گئے تو حکومت نے شدید الفاظ میں مطالبات کو رد کر دیا ہمیں بتا یا جائے کہ بنی گالہ طواف میں کونسا معجزانہ کام ہوا کہ حکومت فوراََ مان گئی؟ انہوں نے سوال اٹھا یا کیا یہ ریموٹ کنٹرول حکومت نہیں ہے؟ اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بنی گالہ میں عمران خان کے گھر پر دھرنا دے کر اپنے مطالبات منوائے اس میں ایک سہو لت ہے پنجاب پولیس آپ کے ساتھ دوستانہ،مشفقانہ اور برادرانہ رویہ رکھتی ہے اسلام اباد کیپیٹل سٹی پولیس آپ کو سیلوٹ کرتی ہے درودیورار آپ کو راستہ دیتے ہیں ”دھرنا“جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی اختراع تھی اس کو عمران خا ن نے ڈی چوک میں چار چاند لگا کر دوبارہ متعارف کرایا اب مشکل یہ ہے کہ کنواں کھودنے والے کے سامنے کنواں آگیا ہے”لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا“ مرزا غالب نے کہا
تھی جن سے توقع داد خستگی کی پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستہ تیع ستم نکلے
سردار حسین بابک کی پوری تقریر سیاسی تھی تاہم انہوں نے اسمبلی کے ایوان میں سیاسی تقریر کے اندر ایک اصولی بات بھی کہی ان کی اصولی بات یہ تھی کہ اگر مطالبات جائز تھے تو بنی گالہ طواف سے پہلے کیوں نہیں مانے گئے؟اگر مطالبات ناجائز تھے تو بنی گالہ طواف کے بعد کس طرح جائز ہوئے کیا طواف کوئے ملامت فرض اور واجب کا درجہ رکھتا ہے؟ یا بقول غالب
پھر طواف کو ئے ملامت کو جائے ہے دل
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
حقیقت یہ ہے کہ ہماری حکومتوں کا رویہ عوام کے ساتھ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے ایک معقول مطالبے کو تین چار سالوں تک سردخانے میں ڈال دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ہڑتال،ریلی،جلوس،لاٹھی چارج،بھوک ہڑتال وغیرہ کی نوبت آتی ہے تب جاکر مطالبے کو تسلیم کیا جاتا ہے اور حکومت اس کا باقا عدہ کریڈیٹ لیتی ہے کہ ہم نے کارنامہ انجام دیا عمران خان نے جب دھرنا دیا تو اس کو تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا کہا گیا پی ٹی آئی کے کارکنوں نے دھرنا دینے پر اتنا فخر کیا کہ گلی گلی اور محلہ محلہ اس کی شہرت پھیل گئی،ایس ایچ او کے خلاف دھرنا،مجسٹریٹ کے خلاف دھرنا،ہیڈ کلرک کے خلاف دھرنا یہاں تک کہ نوبت عمران خان کے خلاف دھرنے تک جا پہنچی۔
سوشل میڈیا پر کالج اساتذہ نے اپنے دھرنے کی تصاویر بالکل اُسی طرح دی ہے جس طرح پی ٹی آئی کے کارکن 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کی تصاویر دیا کرتے تھے نعرے بھی وہی انداز بھی وہی ہے اور طرز تخاطب بھی تقریباََ وہی ہے ان دھرنوں کا ایک ہی علاج ہے عمران خان کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ خیبر پختونخوا کے اصل چیف ایگزیکٹیو جہانگیر ترین ہیں ان کو پشاور میں مستقل سکونت دی جائے وزیر بے قلمدان کا قلمدان دے کر پشاور میں حکومت کے کام ان کو سپرد کئے جائیں بنی گالہ جانے والے قافلے پشاور میں رہینگے اور صوبے کے مسائل صوبے کے اندر حل ہونگے پنجاب پولیس ہمارا مذاق نہیں اڑائیگی اسلام اباد کیپیٹل سٹی پولیس اور موٹروے پولیس کے سامنے ہمارے صوبے کا بھر م رہ جائے گا جو لوگ ہماری حکومت کو ریموٹ کنٹرول کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے ان کی زبان بند ہوجائیگی سول بیورو کریسی میں جولوگ بنی گالہ کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں وہ اپنا قبلہ پشاور ہی میں ڈھونڈ نکا لینگے ورنہ بنی گالہ کے دروازے پر دھرنوں کا سلسلہ مزید تیز ہو جائے گا یونیورسٹی اساتذہ کا دھرنا ابھی باقی ہے این ٹی ایس اساتذہ بھی دھرنے کے موڈ میں بھرے بیٹھے ہیں ینگ ڈاکٹرز،کلرک برادری،مزدور، بے روز گار نوجواں اور چھوٹے تاجر بھی بنی گالہ طواف کا سوچ رہے ہیں اگر سب نے سچ مچ بنی گالہ کا رخ کیا تو یہ کپتان کو مہنگا پڑے گا۔