ہم جب کالج پڑھتے تھے تو ہماری شہریت کا استاد جو خود کافی ٹھاٹ باٹ کی شخصیت ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔بڑی رعونت سے فرماتے تھے کہ ”اقتدار میں نشہ ہے“ہمیں اس وقت نہ اقتدار کا پتہ تھا نہ نشہ کا اندازہ تھا۔۔اب بھی دونوں کا اندازہ نہیں البتہ ان دونوں میں جو کشش ہے اس کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔۔کیونکہ یہ اچھے خاصے لوگوں کو دیوانہ بناتے ہیں۔۔نشے کی قسمیں ہوتی ہیں اور اقتدار کی بھی۔۔لیکن جو نشہ لوگ کہتے ہیں کہ اقتدار میں ہوتا ہے وہ کہیں اور نہیں ملتا۔۔ملک خداداد میں تو یہ نشہ سر چڑ کے بولتا ہے۔یہ کارٹونسٹ غضب کے نقاد اور مسخرے ہوتے ہیں۔۔ایک کارٹون بنایا گیا تھا۔کہ انتخابات سے پہلے بندہ جھک کے آتا ہے۔۔ووٹر کے سامنے سرجھکایا ہوا ہے۔۔جب جیت جاتا ہے تو ووٹر اس کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کو پوری طاقت سے کک مارتا ہے وہ ہوا میں بہت دور جاکے گرتا ہے۔دیکھنے والا دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ جاتا ہے لیکن بات حقیقت ہے۔۔ہمارے ہاں انتخابات کو ”عام انتخابا ت“ کہتے ہیں مگر ان کے پیچھے ایسی ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ ان کو ”عام“ کہنے میں شک گذر تا ہے۔۔کوئی دھاندلی کا واویلہ کرتا ہے۔۔کوئی ووٹروں کو خریدنے کی دھائی دیتا ہے۔۔کوئی بیلٹ پیپر چرانے،بیلٹ باکس غائب کرنے، ووٹروں کو اغویٰ کرنے،ووٹر لسٹوں میں ہیرا پھیری کرنے کی دھائی دیتا ہے۔۔عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جاتے ہیں۔۔فیصلہ ہونے تک حکومت کا دورانیہ ختم ہوچکا ہوتا ہے۔۔یہ ایک کھیل ہے جو”بڑوں“ کے درمیان کھیلا جاتا ہے۔۔عوام کو کلانعام کہا جاتا ہے۔۔کسی نے سوشل انیمل کہا۔۔اگر سوشل الیمنٹ کہتا تو کیا برا تھا۔۔۔جمہوریت آزادی کی حفاظت کا نام ہے۔۔آزادی جسم کی بھی روح کی بھی۔۔نظریات کی بھی احساسات کی بھی۔۔حقوق کی بھی اقدار کی بھی۔۔عدالت کی بھی اداروں کی بھی۔۔اگر کہیں بھی کسی بھی طرح اس آزادی کے معیار میں کمی آجائے تو وہ جمہوریت کی توہین ہے۔۔اس کے ساتھ مذاق ہے۔۔ہماری جمہوریت کا معیار یوں ہونا چاہیئے۔۔کیونکہ مسلمان ہر قسم کا گناہگار ہو سکتا ہے مگر ”جھوٹا“نہیں۔۔اب اگر مغرب کے جمہوری روح کو لے لیں تو اس میں انداز یوں ہے کہ کامیاب لیڈر وہ ہے جس کے دل میں جو بات ہو وہ اس کی زبان پہ نہ ہو۔۔اب ہم جمہوریت کی راگ الاپنے والے مغرب کا پہاڑہ پڑھتے رہتے ہیں۔۔ہمارے ہاں انتخابات کو ”عام انتخابات“ کہتے ہیں کیونکہ عام لوگ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔۔ان میں سے اکثر کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔۔ان کا معیار انتخاب کیا ہے۔۔کیونکہ ایک گونگے کے ووٹ کی بھی وہی حیثیت ہے جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کے ووٹ کی ہے۔۔اس المیے کو اقبال نے بڑے پر سوز انداز میں بیان کیا۔۔
گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز صد خر فکر انسانی نمی آید
اب انتخابات کا جب موسم آتا ہے تو ہمارے لیڈر وں کی اداکاری دیدنی ہوتی ہے۔۔میں آپ کی خدمت کے لئے اپنی جان لڑا دونگا۔۔یہ مٹی ہماری ہے اس کی خدمت ہماری زندگی سے وابستہ ہے۔۔۔ہم آپ کی خدمت کے لئے میدان میں اُترے ہیں۔۔”پچھلی حکومتوں“ نے کچھ نہیں کیا۔۔۔یہ آپ کے حقوق کی حفاظت صرف ہم کر سکتے ہیں۔۔ہمارا انتخابی نشان یاد رکھئے۔۔شیر کو نہ بھولئے۔۔تیر کو یاد رکھو۔۔کتاب ہماری پہچان۔۔قوم کی تقدیر۔۔اللہ کی زمین پہ اللہ کا نظام۔۔دل دھل سا جاتا ہے۔۔لگتا ہے۔۔کہ اپنے عظیم نمائندوں کے پاؤں پڑیں۔۔لگتا ہے یہ مسیحا ہیں یہ قوم کی تقدیر بدل دینگے۔۔یہ شیر ہیں۔۔ہزار شیروں کی فوج کا کمانڈر ایک بھیڑ ہو تو اس فوج کی کوئی حیثیت نہیں ہو تی مگر ہزار بھیڑوں کی فوج کا کمانڈر شیر ہو اس کی حیثیت ہوتی ہے کیوں کہ اس آرمی کا کمانڈر شیر ہے یہ ایک انگریز جنرل کا قول ہے۔۔عوام گفتار کے ان غازیوں کی باتوں پہ ایمان کی حد تک یقین کرتے ہیں۔۔پھر رشتہ داریاں از سر نو جوڑے جاتے ہیں۔۔دوستیاں نبھائی جاتی ہیں۔۔یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔۔وفاوؤں کی دہائی ہوتی ہے۔۔منکسر المزاجی کی حد ہوتی ہے۔۔تبسم کے سوغات ہو تے ہیں۔۔پھر لیڈر خون پسینہ ایک کر دیتا ہے کیونکہ وہ”لیڈر“ بن رہا ہے۔۔حقیقت حال یوں ہے کہ محبت،رہنمائی، اوراحترام کی بھیک مانگنے سے یہ سب نہیں ملتے۔۔ان کے لئے وہ سب صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں۔۔جو ہم میں فلوقت نہیں ہوتے۔۔عام انتخابات میں وہ خاص لوگ چنے جاتے ہیں۔جو ”خاص“ ہوتے ہیں یا تو پیسے والے ہیں۔۔یا رشتے والے ہیں۔۔یا۔۔اب یہ لوگ اپنے وعدوں کے ساتھ منظر سے غائب ہوتے ہیں۔۔پردہ گرتا ہے۔۔پردے کے اس طرف کیا ہوتا ہے یہ کسی کو پتہ نہیں چلتا۔۔ بس کبھی کبھار ایک دوسرے پہ تنقید ہوتی ہے۔۔کبھی ”وفاداریوں“ کی تبدیلی کا یک بابی ڈرامہ ہوتا ہے۔۔کبھی دھرنے شرنے ہوتے ہیں۔لیکن عام لوگ کوئی بیمار ہے ہسپتال میں ہے۔ڈاکٹر کے انتظار میں ہے۔۔کوئی تھانہ کچری میں ہے۔۔کوئی مزدوری کر رہا ہے۔دھوب میں جھسل رہا ہے۔۔کوئی کھیتوں میں ہے۔۔کوئی روڈ کنارے بیٹھ کے بڑوں کے جوتے چمکا رہا ہے۔۔کوئی بچے کے فیس کے لئے قرض مانگ رہا ہے۔۔کوئی بھوک پیاس سے نڈھال ہے۔۔کوئی چھپر ڈالے بارش نہ ہونے کی دعائیں مانگ رہا ہے تاکہ چھت نہ ٹپکے ۔۔کوئی کھلے اسمان تلے ہے۔یہ عام لوگ وہ سب نعرے بھول گئے ہیں۔وہ وعدے بھی۔۔وہ خواب بھی جو دیکھائے جاتے رہے تھے۔۔یہ کھیل جاری ہے۔۔موج میلوں کا کھیل۔۔عیاشیوں کا کھیل۔۔بس نمائندے بن گئے ہیں ان کے وارے نیارے ہیں۔۔نمائندے بنتے ہوئے معیار کی کوئی بات نہ تھی۔۔اس لئے ”عام انتخابات“ کے بعد یہ ”خاص“ لوگ سب کچھ بھول گئے ہیں۔۔ جمہوریت کی ثمرات ہوتی ہیں۔۔خدمت کی قیمت نہیں ہوتی خدمت کی زبان ہوتی ہے۔۔سیاست خدمت کا نام ہے۔۔یہ لیڈر شب اور پارٹیاں اپنے کارنامے گنواتے گنواتے تھکتے نہیں۔۔ان کو احساس کیوں نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ اس قوم کا حق ہے۔۔جس نے یہ حق ادا کیا اس کو شاباش ہے اس کو حکمرانی کا حق ہے۔۔لیکن عام لوگوں کے کان پک سے جاتے ہیں۔۔ان نمائندوں کی جو موج مستیاں ہیں یہ ان کے حقدار نہیں ہیں کیونکہ یہ ایک غریب قوم کے نمائندے ہیں موج مستی ان کو زیب نہیں دیتی۔۔مگر یہ سب کچھ ایک عام انتخابات سے دوسرے عام انتخابات تک ہوتا ہے۔۔۔آگے کا حال سب کو پتہ ہے۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینداد بیداد۔۔10بجے کا مطلب۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوملوئر چترال پولیس کی کامیاب کاروائی 2444 گرام چرس برامد
- ہومٹریفک ڈرائیونگ سکول میں باقاعدہ کلاسز کا آغاز۔لوئر چترال پولیس کا ایک اور احسن اقدام
- ہومونڈز ایگل مارخور پولو ٹورنامنٹ سیزن ون اپنی تمام تر رعنایوں کے ساتھ چترال کے تاریخی پولو گراونڈ (جنالی) میں شروع
- ہومپولیس خدمت مرکز زارگراندہ میں ڈرائیونگ ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ چترال پولیس
- ہوماپر چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی تنظیموں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند اہالیان تورکھو کے ساتھ ان کے احتجاج میں شریک ہوکر انتظامیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا
- مضامینداد بیداد۔۔روم ایک دن میں نہیں بنا۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
- ہوممعروف عالم دین اور مدرسہ امام محمد کراچی کے مہتمم قاری فیض اللہ چترا لی کی طرف سے میٹرک کی ضلعی سطح پر ٹاپ تھیر پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء طالبات میں وظائف اور اقراء ایوارڈ کی تقسیم
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”بین السکول کھیلوں کے مقابلے اور محکمہ تعلیم اپر چترال”۔۔محمد جاوید حیات
- مضامیندھڑکنوں کی زبان۔۔۔”آج کل کا استاذ اور اس کی ذمہ داریاں “۔۔۔محمد جاوید حیات