سٹیک ہولڈ ر کی رائے
حکومت اسلام اباد یا پشاور میں بیٹھی ہے اس کی زبان انگریز ی ہے ڈونر نیو یار ک،روم یا لندن میں بیٹھا ہے اس کی زبان بھی انگریزی ہے این جی او بھی راولپنڈی،مر دان یا منگورہ میں بیٹھا ہے اُس کی زبان بھی انگریزی ہے استفادہ کرنے والا،ڈی آئی خان،چترال یا دیرمیں بیٹھا ہے وہ سرائیکی،پشتو یا یا کھوار بولتا ہے سکیم استفادہ کرنے والے کے لئے آتی ہے مگر اُس زبان میں آتی ہے جو اس کو نہیں آتی وہ اپنی زبان میں جو کچھ کہتا ہے سکیم لانے والا اُس زبان کو نہیں سمجھتا درمیان میں واسطہ بننے والے ذہین اور ہو شیار لو گ کہتے ہیں کہ مہمان کے سامنے ایسی باتیں مت کرو جن سے اُس کے ناراض ہونے کا اجتمال یا خدشہ ہو اس لئے سٹیک ہولڈ ر کی رائے کبھی سامنے نہیں آتی آج میں دو سٹیک ہولڈرز کی باتیں ریکارڈ پر لاتا ہوں یہ وہ باتیں ہیں جو فیشن میں نہیں ہیں میڈیا میں نہیں ا ٓتیں انگیریزوں کے زمانے میں خیر خیریت کو ”سب اچھا“کہا جاتا تھا ماتحت ملازم اپنے افسر کو ”سب اچھا“کہہ کر خیر خیریت کی رپورٹ دیتا تھا آج کل حکومت کو،ڈونرز کو اوراین جی اوز کو ”سب اچھا“کہہ کر خو ش کیا جاتا ہے رورل اکیڈیمی کے جا وید صاحب ڈونر کے لئے ”گوراماموں“کی ترکیب استعمال کرتے تھے انہوں نے مشرف کے دور میں ناظمین کے لئے ورکشاپ کا اہتمام کیا ابتدائی تقریروں میں ورکشاپ کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے اس کے بعد سہولت کا ر نے شرکاء کو دعوت دی کہ اپنی توقعات بیان کریں ناظمیں میں جو وکیل اور تجربہ کار لو گ تھے انہوں نے کہا کہ منصوبہ بندی کی سمجھ آئیگی پھر پیسہ آئیگا پھر ترقی ہوگی عوام کو گھر کی دہلیز پر سب کچھ مل جائے گا اس ورکشا پ سے یہ ہماری تو قعات ہیں مگر افغان سرحد کے ساتھ ملحق علاقہ اراندو کے ناظم شیر محمد خان نے کہا ”ورکشاپ کے دوران مفت کھانا ملے گا رہائش مفت ہوگی،جاتے وقت کرایہ ملے گا“ایک وکیل نے اُس کو ٹوکتے ہوئے کہا فضول باتیں مت کرو،شیر محمد نے وکیل کو جواب دیا کہ تمہاری توقعات میں سے ایک بھی پوری نہیں ہوگی میری توقعات سب پوری ہونگی آخیر میں پتہ لگ جائے گا کس کی باتیں فضول تھیں اخبارات میں چترال کی ڈیٹ لائن سے ایک تازہ واقعے کی خبر یں آگئی ہیں پاکستان غربت مٹاؤ فنڈ (PPAF) نے سٹیک ہولڈ رز کی کانفرنس منعقد کی منتخب ناظمیں اور سول سو سائیٹی کے فعال اداروں سے اہم شخصیات کو بلایا کانفرنس کی جو روداد اخبارات میں آئی اُس میں ایک ہی بات تھی ”تومرا ملا بگومن تراحاجی گویم“ایک دوسرے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے گئے ایک اور افغان بارڈر مستوج سے آنے والے نمائندے سعادت جان نے کھوار زبان میں مختصر الفاظ میں تین کھری کھری باتیں کہیں جن کو اخباری نمائندوں نے رپورٹ کر نے کے قابل نہیں جانا سعادت جان کا کہنا تھا کہ عوام کا نفرنسوں،جلسوں،تقریروں اور وعدوں سے مایوس ہو چکے ہیں اب خبروں پر اعتبار نہیں ہوتا وزیر اعظم نے 19جولائی 2015کو سیلا ب کے موقع پر چترال آکر جو اعلانات کئے ان پرکام نہیں ہوا وزیر اعلیٰ نے جو اعلانات کئے وہ منظر عام پر نہیں آئے ڈونر زنے 2015 میں جو وعدے کئے وہ جھوٹے ثابت ہوئے این جی اوز نے تباہ شدہ انفراسٹر کچر کو 3سال بعد بھی بحال نہیں کیا سب نے جھوٹ بولا سعادت جان نے کہا وزیر ا عظم نے سودی قرضوں کو معا ف کر نے کا ا علا ن کیا مگر سو دی قر ضے معا ف نہیں ہو ئے پچا س ہزار روپے قرض لینے والے نے 2لاکھ روپے ادا کئے ہیں سود کو اصل زر کے سا تھ ملا کر پو نے دو لاکھ بقا یا ہیں اب قرضداروں کی گرفتا ریا ں شروع ہو گئی ہیں پہلے حکومت پر،ڈونر کمیو نیٹی پر اور این جی اوز پر عوام کا کھو یا ہو ا اعتما د بحا ل کرو پھر ا ٓ کر بیٹھو آگے با ت ہو گئی شیر محمد اورسعادت خان کی با تیں کبھی ا خبا رات کی زینت نہیں بنینگی کیو نکہ ان با تون پر مہما ن او رمیزبا ن دونون نا راض ہو تے ہیں ڈونرز کا کلچر بہت عجیب ہے ڈونر اگر ایک کڑوڑ ڈالر دیتا ہے تو اس میں سے 50لا کھ ڈالر مختلف مدو ں میں ڈال کر وا پس یو رپ لے جا تا ہے 30لا کھ ڈالر ورکشا پوں اور کا نفر نسوں میں اُ ڑاتا ہے 15 لاکھ ڈالر مڈل مین کو رشوت دیتا ہے 5لاکھ ڈالر عوام کے لئے رکھتا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے چنا نچہ ڈونر پراجیکٹ ختم ہو نے کے بعد علاقے میں کچھ بھی نظر نہیں آتا کو ئی کا م دکھا ئی نہیں دیتا ”غربت مٹا و فنڈ“آتا جاتا ہے غر بت کم نہیں ہوتی پراجیکٹ کے ڈیزائن میں غربت کا ذکر نہیں ہوتا غر یب کے مسائل اور غریب کی ضروریات کا نام نہیں لیا جاتا ڈونر کو مہمان قرار دیکر خوش کر کے واپس بھیجا جاتا ہے اوپر سے نیچے تک ”سب اچھا“رپورٹ بھیجی جاتی ہے ڈونر کی زبان انگریزی ہے غریب کو انگیریزی نہیں آتی ڈونر کو رپورٹ کی ضرورت ہے غریب کو کام کی حاجت ہے رپورٹ تیا رہوتی ہے کام کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا یہ ڈونر کلچر ہے اس میں سٹیک ہو لڈر کی رائے نہیں لی جاتی اس کو آنے جانے کا کرایہ دیا جاتا ہے دو وقت کا کھاناملتا ہے اور یہ اُس کیلئے اعزاز سے کم نہیں غالب نے100باتوں کی ایک بات اس شعر میں کہی ہے۔
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہو تا ہے شب وروز تما شہ میرے آگے
تازہ ترین
- ہومچترال کے معروف صحافی گل حماد فاروقی ہفتے کی صبح ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں اچانک حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگئے
- ہومڈپٹی کمشنر اپر چترال محمد عرفان الدین کے دفتر میں مختلف آفات کے سبب فوت ہونے والوں کے لواحقین میں امدادی چیک تقسیم کئے گئے
- ہوملویر چترال میں حفاظتی ٹیکے کا عالمی ہفتے کا آغاز آگہی واک سے کردیا گیا
- ہومداد بیداد۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔عبد الغنی دول ما ما
- سیاستتحصیل کونسل چترال کے اجلاس میں ضلعی انتظامیہ کی طرف سے حالیہ بارشوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی اسیسمنٹ کی تاریخ میں کم ازکم دس دن کی توسیع کا مطالبہ کرتے ہوئے موجودہ طریقہ کار پر بھی عدم اطمینان کا اظہا رکیا گیا
- ہومترال شہر اور مضافات کے سینکڑوں تندورمالکان نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ چترال کی علاقائی مشکلات اورحالات کو پیش نظر رکھ کر روٹی کا پرانا نرخ بحال کردے
- Uncategorizedداد بیداد۔۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی۔۔۔چارویلو رحمت ولی خان مر حوم
- ہومحالیہ بارشوں اور قدرتی آفات کے حوالے سے چترال سے تعلق رکھنے والے ایم این اے غزالہ انجم وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات کرکے اہالیان چترال کی مشکلات سے آگاہ کیا۔
- ہومحالیہ بارش اور برفبار ی کے نتیجے میں عوامی مشکلات کے بارے میں پارٹی کی ہائی کمان سے رابطہ کرکے فوری طور پر ریلیف پیکج کی فراہمی کا مطالبہ ۔ عبدالولی خان عابد ایڈوکیٹ
- ہومصحافی کسی بھی علاقے میں عوام کے آنکھ اور کان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔۔ ڈسٹرکٹ پولیس افیسر لویر چترال افتخار شاہ