دھڑکنوں کی زبان ۔۔سرکاری سکولوں کو نجی تحویل میں دینے کے بعد کیا ہوگا.۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

حکومت اصولوں،قوانین،ضابطوں اور ڈسپلن کانام ہے۔۔قانون ہی کی حکمرانی کو اقتدار کہا جاتا ہے۔۔”حکومت” کا مطلب “حکم ” کا اطلاق پھر اس کی پاسداری ہے۔۔۔یہ سب باتیں مجھ جیسا کم علم کسی کو کیا سمجھاۓ یا کیا یہ سب لوگ جن کے حکم،حکومت اور قانون کی رٹ ہوتی ہے وہ یہ سب کچھ نہیں سمجھتے۔۔۔کیا ان کو احساس نہیں کہ ان کے حکم کی کوئی حیثیت نہیں یا اس حکم کی اہمیت نہیں ہوتی۔۔۔یہ سب بظاہر اس ناکام قوم کی شکست ہے جس کے پاس صرف زمین کا ٹکڑا ہے اس میں نہ قانون ہے نہ قانون کی حکمرانی نہ اصول ہیں نہ اصول کی پاسداری اس لیے آۓ روز قانون منسوخ ہونے،قانون لاگو ہونے،قانون ناکام ہونے کی بری خبرین ملتی ہیں۔۔۔۔
تعلیم کسی بھی قوم کا خواب ہوتا ہے ہر قوم اپنے آپ کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی ہے اس کے لیے محکمہ اور ادارے قائم کیے جاتے ہیں اہلکار بھرتی کیے جاتے ہیں اصول بناۓ جاتے ہیں۔۔بدقسمتی دیکھئے کہ اس ملک خداداد میں یہ محکمہ جس کو قوم کا تعلیم یافتہ بنانے کا مہا کام تفویض ہوتا ہے کارکردگی میں صفر ہے۔سب اس پر تنقید کرتے ہیں اس کو سدھارنے پہ کوئی سنجیدہ نہیں۔۔اس میں کئی ایسے سقم ہیں کہ ان کو دیکھ کر رونا آتا ہے۔کتابوں کی فراہمی سے لے کر لیبارٹری اور لائبریری تک،عمارت سے لے کر اس کیاندر سہولیات تک،اساتذہ سے لے کر ان کی کارکردگی تک،کمرہ جماعت سے لے کر امتحان ہال تک سب غیر تسلی بخش ہیں اب جبکہ غیر تسلی بخش کارکردگی کو بنیاد بنا کر حکومت سرکاری اداروں کو نجی تحویل میں دینے کا فیصلہ کر رہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادارے کس کے ہیں اس کے اندر کارکردگی بہتر بنانے کی ذمہ داری کس کی تھی کیا یہ سب حکومت کی رٹ کے اندر نہیں تھے یا ان کے اندر کی پالیسیاں حکومت کی نہیں تھیں کیا استاذ کی تقرری حکومت نے نہیں کی تھی کیا بچوں کو کتاب فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں تھی کیااس استاذ کو نوکری پہ رکھنے کا جواز حکومت کے پاس تھا جو اپنے فرض منصبی نہیں نبھا رہا۔۔ کیا سکول کا ہیڈ ماسٹر قصور وار نہیں کہ اس کے سکول کے اندر کام نہیں ہو رہا۔۔۔کیا امتحان ہال کی تباہی و بربادی کاذمہ دار قصور وار نہیں۔۔اب اگر حکومت ان اداروں کو نجی تحویل میں دے گی تو ان میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں آئیں گی
ا۔۔استاذ غیر حاضر نہیں ہوسکے گا اگر غیر حاضر ہوگا تو پرنسپل اس کو نوکری سے فارغ کردے گا۔۔استاذ تنخواہ بڑھانے کی ضد نہیں کر سکے گا پرنسپل اس کی کارکردگی دیکھے گا۔۔استاذ چھٹی نہیں مانگ سکے گا اس کے اس دن کی تنخواہ کاٹی جاۓ گی۔۔استاذ کو اپنے مضمون پر عبور ہوگا اس کا طریقہ تدریس چیک کیا جاۓ گا غیر تسلی بخش کارکردگی پر اس کو فارغ کیا جاۓ گا۔استاذ اسمبلی میں حاضر ہوگا اور چھٹی تک سکول سے باہر نہیں نکل سکے گا۔۔استاذ لیسن پلان بناۓ گا،،بچوں کی کاپیاں چیک کریگا ٹسٹ لے گا۔۔استاذ کے پاس جزا سزا کااختیار ہوگا۔۔بچے کی کارکردگی فیل پاس کا واضح قانون ہوگا۔۔۔
2۔۔بچے کو جزا سزا ملے گی۔۔غیر حاضر ہونے پر جرمانہ اور سزا ملے گی۔پانچ دن مسلسل غیر حاضر ہونے پر والدین سے رابطے کے بعد سکول سے نکال دیا جاۓ گا۔بچے استاذ کے حکم کے زیر اثر ہونگے۔اپنی کوتاہیوں کا درست جواز پیش کرے گا بے جواز کوتاہی برداشت نہیں کی جاۓ گی۔۔والدین بلا جواز استاذ پر اثر انداز نہیں ہو سکیں گے۔۔استاذ کو عدالت کا ڈر نہ ہوگا۔۔
3۔۔داخلی امتحان میں فیل پاس کا تصور ہوگا اس میں استاذ کسی قانون کا پابند نہیں ہوگا۔۔بچے کی کارکردگی والدین چیک کریں گے اور وقتا فوقتا والدین سے مشاورت کریں گے۔بچے کی ڈسپلن،یونیفارم فیس وغیرہ میں رو رعایت نہیں ہوگی۔۔مفت تعلیم کا تصور ختم ہوگا ہر بچے کو فیس بھرنا ہوگا ورنہ سکول نہیں آسکے گا۔۔
والدین کو اساتذہ کی منتیں کرنی ہوں گی ان کو گالیاں نہیں دے سکیں گے
4.. معاشرے میں استاذ کو طعنے نہیں پڑیں گے۔ان کو کام چور حرام خور وغیرہ ناموں سے نہیں پکارا جاۓ گا۔شاگرد کو کسی بھی طریقے سیاپنی کتابیں،کاپیاں دو چار دنوں کے اندر حا ضر کرنے ہوں گے اس میں مہینوں کتابوں کا انتظار کرنا نہیں ہوگا۔
5. استاذ کو یہ خوف نہ ہوگا کہ بچوں کی تعدادگھٹتی ہے۔ان کو گلی کوچوں میں بچے ڈھونڈنے نہیں ہوں گے۔۔ان کو یہ خوف نہیں ہو گا کہ قوم کے کتنے بچے تعلیم سے محروم ہیں استاذ جو اپنی تنخواہ اور پرنسپل کو اپنی امدنی کا غم ہوگا۔والدین کو بچوں کی پڑھائی کی فکر ہوگی۔۔ان کے ہوم ورک چیک کریں گے۔۔استاتذہ کا پوچھیں گے گھر میں ان کی نگرانی ہوگی۔۔بچوں کو فیل ہونے کا،غیر حاضر ہونے اور اساتذہ کی سزا کا غم ہوگا۔۔یہی سب کچھ گورنمنٹ سکولوں میں ہونا چاییے تھا۔ممکن نہ ہوسکا۔۔ یہ ماحول گورنمنٹ سکول میں نہیں تھا۔۔فیل کرنا،سزا دینا،پوچھنا استاذ کے لیے ضروری نہیں تھا۔۔والد کبھی بچے کا نہ پوچھتا کہ وہ کیا کررہا ہے اس کے سکول میں کیا ہورہا ہے۔۔سکول میں خدا ترس اور اپنی ڈیوٹی سے مخلص کوئی ایک استاذ ہوتا ورنہ جس کا پوچنے والا کوئی نہ ہو وہ کیوں اپنی جان کھپاۓ۔پراویٹائزیشن میں یہ ساری خامیاں دور ہوجائیں گی۔۔مگر تعلیم کا دروازہ مجبوروں پر بند ہوگا جس گھر میں کھانے کو دو وقت کی روٹی نہ ہو اس کے بچے گلی کوچوں میں پھریں گے کل کو بے ہنر مزدور ہوں گے یا ان پڑھ جھاٹھ ہوں گے گاٶں کیچند سفید پوشوں کے بچے صاف ستھرے کپڑوں میں سکول جائیں گے تعلیم ان کا حصہ ہوگا تربیت سے وہ بھی عاری ہوں گے کیوں کہ تربیت ان کی عیاشی کی راہ میں روکاوٹ ہوگی۔۔۔حکومت کا تعلیم پر جو پیسہ خرچ ہو رہا ہے وہ بچ جاۓ گا وہ وزراء،امراء اور افسر شاہی کے کام آۓ گا۔۔سرکاری سکولوں کو نجی تحویل میں دینے سے پہلیکیا حکومت اور محکمے کو یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ تعلیم کے لیے ان کی پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔۔اداروں کے اندر ان کی رٹ کی شکست ہے وہ اساتذہ سے کام نہ کرا سکے۔انہوں نے نشنل ٹسٹنگ سسٹم کے زریعے اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کو بھرتی کیے تھے ان میں سے اکثر وہ اساتذہ تھے جو اس سے پہلے غیر سرکاری سکولوں میں قلیل تنخواہ میں کام کر رہیتھے ان کے کام کی قدر تھی سب کہتے تھے کہ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ قلیل تنخواہ میں اچھا کام کر رہے ہیں ان کے شاگرد قابل ہیں اب سرکاری سکولوں میں ان کی محنت اور قابلیت کو کیا ہوجاتا ہے یہاں پر ان کی وہ کارکردگی زیرو کیوں ہے یہ سب حکومت اور محکمے کی سوچنے کی باتیں ہیں کیا ان سب کا نتیجہ یہ نہیں کہ حکومت کی ناقص پالیسی نے ان اداروں کو تباہ کردیا ہے۔۔حکومت کوالیٹی ایجوکیشن مانگتی ہی نہیں۔۔حکومت اساتذہ سے کام کرانا چاہتی ہی نہیں۔حکومت اپنے اداروں کے اندر تعلیمی ماحول لانا ہی نہیں چاہتی۔حکومت کو ان غریب بچوں کی فکر ہی نہیں جن کو بھی امیروں کی طرح تعلیم سے بہرہ ور ہونا ہے۔۔ اس پالسی سے واضح ہو رہا ہے کہ تعلیم کا دروازہ غریبوں پہ بند ہو نے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ورنہ تو حکومت سرکاری اداروں کے اندر مثبت تبدیلی لاتی۔ اپنے فرائض منصبی سے غافل استاذہ قوم کے دشمن ہیں۔۔ان کی کارکردگی اس وقت جانچی جاتی جب پہلے ان سے خوب کام لیا جاتا۔اگر ایسا نہ ہو توان کو فارغ کیا جاتا۔۔۔ایسا نہیں کہ پورے سسٹم کو برباد کیا جاۓ اور قوم کو ان پڑھ رکھنے کی سوچی سمجھی کوشش کی جاۓ