دھڑکنوں کی زبان۔۔”افعان مہاجرین کی وطن واپسی۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

چترال وہ خوش قسمت سر زمین ہے جس کو اپنے مسلمان افعان بھائیوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا ۔۔۔روس کی افعان سرزمین پر یلغار کے بعد ایمان کی دولت سے سرشار افعان مسلمان اپنے گھر بار چھوڑ کر پڑوس ممالک کی طرف سفر ہجرت کر گئے ان کو دنیا نہیں ان کا ایمان عزیز تھا ۔۔روس خود نہیں آیا تھا اس کے چیلوں نے اس کے لیے راستہ ہموار کیا تھا یہ روس کے عروج کا دور تھا اس کا ایک خواب بحر ہند کے گرم پانیوں تک رسائی بھی تھا وہ افعانستان اور پاکستان کو روند کر گوادر اور کراچی تک پہنچنا چاہتا تھا ۔۔یہ 1978 ,1979ء کا سخت ترین دور تھا جب افعانی مہاجر ہوۓ چترال کی سرحدین پوری افعانستان سے ملتی ہیں ان میں شاہ سیدیم لوٹکوہ،اورسون،ارندو ،بمبوریت وغیرہ اسان سرحدی راستے ہیں ۔۔پاکستان نے اپنے افعان مسلمان بھائیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دی دیکھتے ہی دیکھتے افعان بھائی بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں پھیل گئے ۔ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ سے اوپر افعان مہاجریں پاکستان آۓ ۔۔چترال اس وقت بہت پسماندہ تھا مگر چترالیوں نے کمال قربانی دے لاکھوں افعان مہاجرین کو خوش أمدید کہا۔مہاجرین کے کیمپ بنے ان کو باہر دنیا سے بھی امداد آنے لگی لیکن بڑی بات اپنے معاشرے میں دوسری قوم کی شمولیت ان کی ثقافت ،معاشرت ،طرز زندگی کی اثر اندازی کی تھی یقینا روٹی، کپڑا ، مکان کا اتنا بوجھ نہیں تھا جتنا ان کی ثقافت ،طرز زندگی اور انسانی ضروریات کا بوجھ چترالی معاشرے پر تھا ۔۔افعان بھائیوں نے چترالی ثقافت کو ڈسٹرپ کرنے کی بجاۓ اس کا احترام کیا۔ کوئی ایسا ذہنی ،ثقافتی ،اور اخلاقی بوجھ معاشرے پہ ان کی وجہ سے نہیں پڑا کہ چترالی معاشرہ تباہ و برباد ہوجاتا ۔۔۔معمولی انسانی تقاضے اپنی جگہ لیکن افعان بھائیوں نے یہ بھی گوارہ نہیں کیا کہ اپنے چترالی بھائیوں پہ بوجھ بن جائیں ۔۔انہوں نے محنت مزدوری کی سختیاں برداشت کیں لیکن کبھی کسی کو بھیک مانگتے ،چوری چکاری ،لوٹ مار قتل و غارت یا چترالی بھائیوں کے لیے مصیبت بنتے نہیں دیکھا ۔ساتھ وہ چترالیوں کا احسان مانتے بھی ہیں یہ مدینے کے مہاجرین و انصار کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔۔افعان مہاجرین پچھلے کم از کم چالیس سالوں سے ادھر رہ رہے ہیں ان کی ایک نسل یہاں پر پلی بڑی ہے یہاں کے سکولوں سے تعلیم حاصل کیے ۔ییاں کی زبان سیکھی ۔یہاں کا بودو باش اہنایا ۔یہاں پہ گھر بناۓ حلقہ دوست احباب بنے یہ ایثار ،قربانی اور محبت کی لا زوال داستانیں ہیں ۔اب جب کہ حکومت پاکستان کی طرف سے ان کو اپنے ملک جانے کا حکم ملا ہے تب وہ قربانی ،وہ محبت وہ ایثار کی مثالیں قائم رہنی چاہیں ۔۔وہ بھائی بن کے رہے تھے کبھی اجنبیت محسوس نہیں کی تھی تب ان کو بھائیوں کی طرح رخصت کرنی چاہیے ۔۔ان کے گھر بار ،مال و اسباب کی قدر کرنی چاہیے ۔۔وہ بے شک گھر بار چھوڑ کر ادھر آۓ تھے ۔۔اب گھر بار چھوڑ کے خالی یاتھ تو نہ جائیں وہ گویا ایک گھر سے دوسرے گھر شفٹ ہو رہے ہیں بے شک ان کے گھر ادھر رہیں لیکن ان کے مال و اسباب ان کے ساتھ جائیں ۔۔چترالی بھائی اپنے بھائی ہونے کا ثبوت پیش کریں ان کو معقول قیمت دے کر ان کے گھر نہ خریدیں ان کے مال و اسباب نہ خریدیں بلکہ ان کو منہ مانگی قیمت ادا کریں تاکہ وہ وہاں جا کر پھر تنگ دستی کا شکار نہ ہو جائیں ایسا لگے کہ وہ اپنے دینی بھائیوں سے رخصت ہوکے آۓ ہیں ۔۔ یہ امر قابل افسوس ہے کہ ان کی مجبوری سے فاٸدہ اٹھایا جاۓکہ وہ اپنے قیمتی سامان اونے پونے بھیجدیں اور خالی ہاتھ چلے جاٸیں ۔یہ چترالیوں کی غیرت کا سوال ہے ان کی چالیس سال کی وفا ،ہمدردی اور محبت کا سوال ہے ۔۔محبت ایسا جذبہ ہے جس کی توہین نہیں کی جا سکتی ۔افعان مہاجریں ہمارے بھائی تھے ،بھائی ہیں اور بھائی رہیں گے ۔پاکستان کے دوسرے علاقوں میں رہے ہوۓمہاجرین پاکستانیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں وہ الگ بات ہے چترال میں زندگی گزارے ہوۓ مہاجرین کا چترالیوں کے بارے میں احترام اور محبت کا جذبہ ہے اس کی قدر ہونی چاہیے ۔۔زمانہ قدیم سے چترال اور افعانستان کا یہ تعلق رہا ہے بلکہ اکثر چترالی باشندے افعان نژاد ہیں یہ رشتہ خون کا ہے ۔اس کو قائم رہنا چاہیے۔