دھڑکنوں کی زبان ۔۔”نگاہوں کی دلوں کی عید “۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

خلیفہ اپنے معمولی کمرے میں بیٹھے تھے دو شہزادیاں کچھ چبا رہی تھیں مگر ساتھ رو بھی رہی تھیں۔۔خلیفہ کی انکھوں سیآأنسو جاری ہو گئے بیوی نے تسلی دیتی ہوئی کہا۔۔۔۔کوئی بات نہیں یہ دو دن کی سوکھی جو کی روٹی تھی آہستہآأہستہ لقمہ تر ہو کر ان کے خلق سے اتر ہی جاۓ گا۔خلیفہ نے کہا میں اس لیے نہیں رو رہا ہوں کہ میری بچیاں جو کی سوکھی روٹی کھا نہیں سکتی ہیں لقمہ خلق سے نیچے نہیں اتر رہا ان کو تکلیف ہوتی ہے میں اس لیے رو رہا ہوں ک میری بچیوں کو جو کی سوکھی روٹی میسر ہے میری اس وسیع سلطنت میں کوئی ایسی بھوکی بچی تو نہیں جس کو جو کی سوکھی روٹی بھی میسر نہ ہو۔۔ یہ تھے خلیفہ عمر بن عبد العزیز اور یہ تھیں ملکہ خلیفہ جن کی دولت،پر تعش زندگی اور زیورات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔۔۔عمر بن عبد العزیز کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ بہت پر تعش زندگی گزارتے تھے خوش لباس ایسے کہ دن میں کئی مرتبہ نئے کپڑے پہنتے ایک جوڑے سے پورا دن نہیں گزارتے۔۔خلیفہ بنے تو بیوی سے فرمایا۔۔سارے زیورات بیت المال (قومی خزانہ) میں جمع کردو ورنہ اپنا راستہ علحیدہ کر لو۔۔یہ لفظ (قومی خزانہ) کہتے ہوۓ عجیب لگتا ہے کہ کبھی یہ قوم کی امانت ہوا کرتا تھا اور یہ اقتدار اللہ کی امانت ہوا کرتا تھا۔عید پر خلیفہ کے بچوں نے نئے کپڑے مانگے خلیفہ نے بیوی سے کہا میری پرانی چادر پھاڑ کر ان کے لیے کپڑا سلوا دو۔۔۔یہ افسانوی لوگ اس دنیا میں آئے اور دنیا سے گزرے بھی ۔یہ اللہ کو ماننے والے کلمہ گو تھے۔۔ہم بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں۔ جو یہ پڑھا کرتے تھے۔۔انہوں نے بھی اسی اللہ پہ ایمان لاۓ تھے جس اللہ پر ہمارا ایمان ہے۔ہمارے بڑوں کے پاس تو دولت کی تجوریاں ہیں ہم جیسے لوگ بھی عید پر اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے کم از کم کپڑے سلواتے ہیں جوتے خریدتے ہیں گھر میں مٹھیائیاں لاتے ہیں سویاں پکاتے ہیں۔بریانی کی دیگ ہوتی ہے۔لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے ارد گرد سوچا ہے کہ ہمارے بچوں جیسے بچے نئے جوڑوں کی آرزو میں تڑپ رہے ہیں۔ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں ان کے والدیں کے تصور میں بھی نہیں کہ وہ عید کے لیے نئیجوڑے بنوائیں۔۔لیکن پھتر کے معاشرے میں تین جوڑا بنانا تو لازم ہے۔۔قرض چڑھا کر بھی ایسا کرتے ہیں بڑے بڑوں میں تو اصراف معیار زندگی ہے فیشن مقصد ہے ریاست کے ذمہ داروں سے اگرپوچھا جاۓ کہ انہوں نے ذاتی طور پر کتنے مستحقین کی مدد کی۔۔کتنوں کو جوڑے بنا کے دیئے۔کتنوں کو اپنی عید کی خوشیوں میں شریک کیا۔وزیر اعظم پاکستان ان کے وزرا مشیران جن کو انہی مجبوروں کی حمایت نے ان کرسیوں پہ پہنچا دیا ہے نے کتنوں کو اپنی خوشیوں میں شامل کیا۔ان سارے بیروکریٹ سے استفسار کیاجاۓ کہ ان کی خوشیاں کیا صرف ان کی ہیں یا ان میں کسی کو شامل کرنا ان کا دینی،اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔آج کتنے چہرے ہیں جو افسردہ ہیں۔آج کتنی جیبیں ہیں جو خالی ہیں۔آج کتنے خواب ہیں جو بے تعبیر ہیں ٹوٹے ہوۓ ہیں۔آج کتنے والدین ہیں جو اپنی اولاد کو اپنے سامنے افسردہ دیکھ رہے ہیں۔اسلام میں تو جانوروں پہ بھی رحم کرنے کا حکم ہے۔انسانیت یقینا رحم کا مستحق ہے۔۔۔اللہ کے رسول ص نے فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ہماری جیب میں پڑی رقمیں ہماری نہیں ہیں ان میں دوسروں کے حصے ہیں۔ان کے حصے تمہارے پاس امانت ہیں۔دنیا کی طلب کبھی زندگی کا مقصد نہیں رہی دنیا کی فکر لازمی ہے۔۔اسی پر آخرت کا انحصار ہے لیکن اللہ کے نبی ص نے فرمایا کہ کسی مجبور کی مجبوری دور کرنا میری اس مسجد میں کئی اعتکاف سے بہتر ہے۔یہ حقیقت میں زندگی کی خوبصورتی ہے اپنے لیے جینا کوٸی مشکل نہیں۔یہ دولت آزمائش ہے۔۔یہ جوانی یہ پرتعیش زندگی،یہ جائداد محلات یہ سب سراب ہیں ایک دن آنکھیں حقیقت دیکھیں گی۔اگر کسی انسان سے صرف صحت کی نعمت واپس لی جاۓ۔۔۔عافیت اور سکوں کی دولت واپس لی جاۓ۔بدن کا کوئی حصہ مفلوج ہوجاۓ تب انسان کو اپنی بے بسی کا احساس ہوگا۔۔غریب کا قصور غریب ہونا ہے مگر امیر کا کمال امیر ہونا نہیں ہے۔۔اقبال نے بڑے درد سے فرمایا تھا۔۔دھن کی دولت چھاٶں ہیآتی ہے دھن جاتی ہے دھن۔۔۔۔سائنس کی زبان میں انسان کئی بار مرتا ہے۔۔اس کے تازہ خلیۓ مرتے ہیں۔۔ان کی جگہ نئے بنتے ہیں۔ان کا بچپن مرتا ہے ان کی جوانی مرتی ہے مگر اس کو احساس تک نہیں۔۔پھر بھی اس کو اپنے فانی ہونے کا یقین نہیں۔۔ہماری عید صرف ہماری ہی ہے۔۔۔ہمارے دلوں اور نگاہوں کی عید تب ہوگی جب ہم دوسروں کو خوش دیکھیں گے۔۔۔