صدا بصحرا۔۔۔یادیں حکمرانوں کی۔۔۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

Print Friendly, PDF & Email

یادیں حکمرانوں کی
طارق عزیز جب اپنے کیر ئیر کے جوبن پر تھے وہ نیلام گھر میں کسی مہمان کوتحفہ دیتے ہوئے ایک سکہ بند جملہ دہراتے تھے ”یہ آپ کو یاد دلا ئے گا کہ آپ نیلام گھر میں آئے تھے“ حکمرانوں کے ترقیاتی منصوبے ان کے تحفے ہوا کرتے ہیں حکومت کے جانے کے بعد یاد رہتے ہیں میانوالی پنجاب سے آئے ہوئے دو مہمانوں نے چترال کے چند یونین کونسلوں میں چار دن گذ ارے وہ کسی تحقیقی مشن پر نہیں تھے راستوں سے گذرتے ہوئے،گاؤں میں چکر لگاتے ہوئے گپ شب میں انہوں نے دو باتوں کا گہرا اثر لیا پہلی بات یہ تھی کہ سکولوں کی 6 عمارتیں 2012 میں تیار ہوئی تھیں 2017 ؁ء تک ان میں کلاسیں شروع نہیں ہوئیں دوسری بات انہوں نے یہ نوٹ کی کہ جولائی 2015 ؁ء کے سیلاب میں پُل اور سڑکیں ٹوٹ گئی تھیں ان کی مرمت 2017 ؁ء تک نہیں ہوئی گاڑی ایک شاندار عمارت کے سامنے پیر کے دن صبح 10 بجے گذر رہی تھی مہمان نے یہ پوچھا یہ عمارت کس محکمے کی ہے؟ انکو بتایا گیا کہ ہائیر سیکنڈری سکول ہے مہمان نے پوچھا اس پر کیوں تالہ لگا ہوا ہے؟ ان کو بتایا گیا کہ یہ عمارت امیر حیدر خان ہوتی نے بنوائی تھی ان کی حکومت ختم ہوئی تو آنے والی حکومت نے اس پر تالہ لگوادیا چار سالوں سے بند ہے میانوالی کے مہمان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا مہمان کو بتایا گیا کہ کل آپکو ایسی 10 عمارتیں دکھا ئینگے ہائی سکول برائے طالبات، ہائی سکول برائے طلبہ ہائیر سیکنڈری سکول برائے طلبہ، ہائیر سیکنڈری سکول برائے طالبات جنکی عمارتیں 2012 ؁ء میں بن گئی تھیں اُ ن پر چار سالوں سے تالہ لگے ہوئے ہیں مہمان نے کہا تعلیم تو عمران خان کی پہلی ترجیح ہے میزبان نے ان کو بتایا کہ سکول اُن کی آخری ترجیح ہے وہ کہتے ہیں کہ عمارتوں سے انقلاب نہیں آتا، تعمیرات سے تبدیلی نہیں آتی،ذہنوں کو تبدیل کروتو تبدیلی آئیگی مہمان نے پوچھا اس کا کیا نتیجہ ہوا؟ میزبان نے بتایا کہ ذہنوں میں تبدیلی آگئی 4 سال پہلے جولوگ عمران خان کے شیدائی تھے انہوں نے کپتان کو چھوڑ دیا، کرکٹ ہیرو سے محبت کو خیر باد کہہ دیا اور دوسری پارٹیوں میں جاکر اپنی سرگرمیاں شروع کردیں ذہنوں کی اس تبدیلی نے صوبے کے اندر انقلاب برپا کردیا 4 سال پہلے عمران خان پہلے نمبر پر تھا 4 سال گذر نے کے بعد ان کا نمبر پانجواں یا چھٹا ہو گیا مہمان کو بہت افسوس ہوا مہمان نے کہا الیکشن میں ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصہ رہ گیا اب بھی کام کا وقت ہے میزبان نے بتایا کہ 2016-17 کا بجٹ بھی واپس کیا جارہا ہے مالی سال کے 8 مہینے گذ ر گئے ایک بھی سکیم شروع نہیں ہوئی ترقیاتی بجٹ کا 75 فیصدخرچ ہونا چاہیے تھا اب تک 20 فیصد بھی خرچ نہیں ہوا مہمان نے پھر افسوس کا اظہار کیا اور پنجاب حکومت کی چند سکیموں کا ذکر کیا انہوں نے بتایا کی پنجاب میں 40 کروڑ روپے کا سکول ایک سال میں تیار ہوتا ہے 11 ارب روپے کی سڑک 8 مہینوں میں مکمل ہوجاتی ہے صبح 7 بجے مہمان باہر نکلا تو بچے اور بچیاں 10 سنٹی گریڈ کی سردی میں بستے اُٹھا کر سکول کیلئے نکلے تھے گاڑی کھڑی کر کے ایک 15 سالہ بچے کو لفٹ دیدی راستے میں بچے نے بتایا کہ وہ نویں جماعت میں پڑھتا ہے گھر سے سکول کا فاصلہ 4 کلو میٹر ہے وہ روزانہ 8 کلو میٹر پیدل سفر کرتا ہے اُس کے گاؤں سے 36 بچے اور بچیاں 4 کلو میٹر دُور جا کر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور سامنے طلباء اور طالبات کی لمبی قطار جارہی تھی طالب علم سے پوچھا گیا کہ تمہارے گاؤں میں ہائی سکول کیوں نہیں ہے؟ اس نے کہا ہا ئی سکول کی عمارت مکمل ہوئی تو میں پا نچویں جماعت میں تھا میں آٹھویں جماعت پاس کیا تو سکول کوسٹاف نہیں ملا اب تک سکو ل بند ہے سٹاف نہیں ملا امیر حیدر خان ہوتی کی حکومت ہوتی تو اب تک سکول کے سٹاف کو 4 سال ہوچکے ہوتے نویں جماعت میں پڑ ھنے والا بچہ اس کا نام جا نتا ہے جس نے سکول کی عمارت بنائی وہ غلام محمد ایم پی اے کا نام لیتا ہے تو میانوالی کی مہمانوں کو اُن سے ملنے کی خواہش ہوتی ہے تعمیراتی کام ہی حکمر انوں کو زند ہ رکھتے ہیں واپسی سے ایک دن پہلے مہمان کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر جانے کی ضرورت پڑی اس نے راستے میں چھوٹے سے نالے پر جھولا دیکھا،خواتین اور بچیاں جھولے کے ذریعے نالہ پار کر رہی تھیں جھو لا چلانے والا ایک سواری کے 10 روپے لے رہا تھا میانوالی کے مہمان نے پو چھا یہاں پُل کیوں نہیں ہے میزبان نے بتایاکہ پُل بنا یا گیا تھا جولائی 2015 ؁ء کے سیلاب میں بہہ گیا نئے پل کے لئے 10 لاکھ روپے کی ضرورت ہے نہ صوبائی حکومت کے پاس فنڈ ہے نہ ضلعی حکومت کے پاس کوئی سکیم ہے نہ این جی اوز کے پاس اس کے لئے این او سی ہے 20 مہینے ہوگئے 300 فٹ گہر ے نالے کے اوپر 45 فٹ لمبا جھولا لگا یا گیا ہے سکول اور ہسپتال جانے والے لوگ اس پر سے گذرتے ہیں یہ عوام کی مجبو ر ی ہے واپسی پر مہمان نے اس پر دکھ کا اظہار کیا ہے اُس کے دُکھ درد میں مزید اضافہ کر نے کے لئے مہمان کو بتا یا گیا کہ جولائی 2015 ؁ ء کے سیلاب میں اس طرح کے 10 پُل بہہ گئے تھے اس پُل کے قریب اسی نالے پر دوسرا پُل بھی بہہ گیا تھا وہاں لوگ سیڑھی لگا کر نالے کے اندر اترتے ہیں پھر سیڑھی کے ذریعے نالہ پا ر کر کے دوسری طرف سیڑ ھی لگا کر باہر آتے ہیں اس طرح 16 مقامات پر سڑکیں سیلاب میں بہہ گئی تھیں آبنو شی کی 12 سکیمیں سیلاب میں بہہ گئی تھیں، 14 نہروں کو نقصان پہنچا تھا 4 میگا واٹ کا بجلی گھر بہہ گیا تھا 20 مہینوں میں کسی ایک سکیم پر بھی کام شروع نہیں ہوا میانوالی کے مہمانوں کو عجیب لگا انہوں نے پوچھا کیا عمران خان یہاں نہیں آتا؟ میزبان نے بتایا کہ کپتان ہیلی کاپٹر کے ذریعے دوبار آیا تھا بہت مصروف تھا کسی سے ملنے اور سڑک یا پُل دیکھنے کا موقع اس کو نہیں ملا مہمان نے پوچھا، پارٹی کارکنوں کواس طرح کے مسائل کپتان کی نوٹس میں لانا چاہیے تھا میزبان نے کہا کہ پارٹی کارکنوں سے ملاقات کاوقت بھی نہیں ملا میانوالی کے مہمان نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کوعوام صرف تعمیرات کی وجہ سے یاد کرتے ہیں موٹر وے اور میٹر وبس نظر آتے ہی نواز شریف کا نام یاد آ جاتا ہے سکولوں کی یہ عمارتیں اُس وقت کے حکمرانوں کی یادد لاتی رہینگی اس طرح سیلاب سے متاثر ہونے والا انفرانسٹرکچر حکومت کی نا کامی کا اشتہار بنے گا مجھے طارق عزیز کا جملہ یا د آگیا وہ نیلا م گھر کے مہمان کو تحفہ دیتے ہوئے کہتا تھا ”یہ تحفہ آپ کو یاد دلائے گا کہ آپ نیلام گھر میں آئے تھے“