والدین نے بڑی چاو سے پالا پوسا تھا۔سکول پڑھا کالج یاترا کیا۔۔گھر میں انڈے،مرغی،بکری،وغیرہ بھیجے جاتے۔جو ہاتھ آتا بھیجا جاتا۔باپ مزدوری کرتے۔ماں اسی طرح جان کھپاتے۔۔ اسی طرح ان کی تعکیم و تربیت کے خرچے اٹھاۓ جاتے۔۔۔زندگی آرزووں کی بھینٹ چھڑتی۔۔۔بیٹا پڑھ لکھ کر “نوکر” ہوگا۔ان کو کیا پتا کہ “نوکر” غلام کو کہتے ہیں۔سرکاری نوکر کی بڑی قدر تھی۔جو معمولی نوکر تھا وہ کماوتھا اس کے پاس روزگار تھا باقی سب بے روزگار تھے۔نوکر کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملاۓ جاتے۔۔نوکری چشمے کا پانی ہے کبھی خشک نہیں ہوتا۔پہلے تنخواہ ملتی ہے پھر بوڑھے ہو جاو تو ” پنشن ” ملے گی تا دم مرگ۔۔۔جیب خرچ۔۔۔سرکاری نوکری انسان کی سکیوریٹی ہے زندگی محفوظ ہو جاۓ گی۔۔سرکاری نوکر اپنی جوانی گنوا دے گی جسم میں طاقت ختم ہو جاۓ گی۔قوی مضمخل ہو جائیں گے کسی کام کا نہیں رہے گا۔۔حکومت کی مہربانی اس کو پنشن کے نام پہ جیب خرچ ملے گا۔دنیا کے دوسرے ممالک میں حکومت کی طرف سے بہت ساری سہولیات ہیں یہاں پر زندگی مشکل ہے زندگی پنشن کا دوسرا نام ہے۔آج سے بتیس سال پہلے کی کوئی سہانی صبح تھی کہ بیٹا کی نوکری کی خیر خبر آئی تھی۔۔ماں باپ سربہ سجود ہوۓ تھے۔۔بیٹے کی زندگی محفوظ ہوگئی تھی۔۔ماہانہ تنخواہ پھر پنشن۔۔۔۔بیٹے کی نوکری لگی تھی۔۔پہلی تنخواہ دو ہزار روپے ملے تھے بیٹے نے باپ کے ہاتھ میں رکھے تھے۔ماں کی آنکھوں میں تشکر کیآنسو تھے۔۔پھر زندگی کی دوڑ شروع ہوئی تھی۔۔دور دور پوسٹنگ ہوتی۔۔موسم کی سختیاں برداشت کی جاتیں۔حکم حاکم کبھی ٹریننگ، کبھی اور قسم کی ڈیوٹیاں،افیسروں کے نخرے،عوام کی شکایات،ڈیوٹی کی مجبوریاں،خاندان کی خوشی غمی میں غیر حاضر،ماں أہ بھرتی انتقال کر جاۓ بیٹا گھر سے دور ہو۔باپ کی دیدے افسردہ ہوں بیٹے صورت نہ دیکھا سکے۔پھر أفیسروں کی عیاشیاں،ان کو دیکھ دیکھ کر کڑ جاۓ۔۔بچت کوئی نہیں تنخواہ مہینے کی دس دن تک جیب میں رہے پھر قرض پہ گزارا ہو۔دن گنے جائیں۔دھائی دی جاۓ کہ کب پہلی تاریخ أۓ۔۔یہ نہ سوچا جاۓ کہ یہ پہلی تاریخ عمر عزیز کہلاتی ہے یہ جتنی جلد آجاۓ اتنی جلد عمر عزیز ختم ہوجاۓ۔آخر کو عمر گزشتہ کی میت ہر نفس پہ بار لگے۔۔۔اور مر مر کے جینے کا نام زندگی ہو۔۔عمر عزیز کے پچاس سال پورے ہوجائیں تو پھر پنشنی کی بات چھڑ جاۓ۔۔سوال آۓ نوکری کے کتنے سال رہ گئے۔۔اب سال گنے جائیں۔ایک دو تین۔۔۔۔۔پھر آخری سال۔۔ مہینے گنے جائیں۔۔۔پھر دن گنے جائیں۔۔پھر آخری دستخط کا مرحلہ آجاۓ۔۔تنخواہ بند ہو۔۔پنشن کے چند سکے آجائیں۔۔جس کے پاس رہنے کو چھت نہ ہو وہ سر کا ساٸبان بناۓ۔۔کوٸی مذہب کا شیداٸی حج پہ جاۓ۔کوٸی منچلا دکان کھولے اور عرصہ ایک سال میں دکان خالی ہو۔۔یہ پنشنر کی کہانی ہے۔۔۔ان کو اب بھی احساس نہیں ہوتا کہ اس کی جوانی کدھر گئی۔اس کا بچپن کا کیا بنا۔اس کے سینے میں کوٸ طوفان اٹھا بھی کہ نہیں۔ان کی ہنسی، مسکراہٹ کا کیا بنا۔اس نے کبھی قہقہا لگایا بھی کہ نہیں کیونکہ ان کی زندگی آرزو اور جستجو کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوگٸ تھی۔وہ بچوں کی نذر ہوگئی تھی وہ تگ و دو میں عرق ہوگئی تھی وہ ناکام کو ششوں میں کہیں گم ہوگئی تھی اب رہ رہ کے پنشن یاد آتی۔۔پڑھاپے کا سہارہ۔۔لرزتے ہاتھوں میں چھڑی۔ بے نور نگاہوں کا نور۔۔۔دھڑکتے دل کی تریاق۔۔جھکی کمر کا سہارا۔۔۔گرتی صحت کے لیے چند ٹیبلٹز۔۔لیکن یکایک۔۔اس ملک کو اس کے حکمران کو کچھ ہوجاتا ہے۔۔۔وہ ملک جس پر اس کی جوانی نچھاور ہوٸی تھی۔وہ ملک جس کی محبت میں أنچ نہیں آنے دیا گیا تھا۔وہ ملک جس کا ترانا گایا گیا تھا۔۔وہ ملک جس کے سبز جھڈے تلے عقیدت سیزندگی گزاری گئی تھی۔اس ملک کے حکمران کو کچھ ہوجاتا ہے۔اس کو اس کی عیاشیاں کم نظر آتی ہیں۔اس کو اس کے مراعات،اس کی تنخواہیں کم نظر آتی ہیں۔اب ان سب میں اضافہ کرنا ہے۔۔یہ رقم کہاں سیآۓ بندوبست کس طرح ہو۔۔۔اس کو یہ نوکر اور اس کے بڑھاپے کا سہارا پنشن یاد آتی ہے۔۔۔یہ ملکی خزانے پر بوجھ۔۔یہ پنشن کس واسطے دیا جارہا ہے اس بوڑھے نے اس ملک کے لیے کیا کیا ہے۔۔اس کی جوانی تھی کہاں کہ اس ملک پہ قربان ہوگئی۔۔۔پنشن میں اصلاحات لاو۔۔۔یہ بوجھ خزانے پہ ہے ملک پہ قوم پہ ہے۔۔۔۔بوڑھا پنشنر یہ سنتا ہے تو انگشت بدندان ہوجاتا ہے۔۔سوچتا ہے کہ جس ملک کے لیے اس نے اپنی زندگی گنوا دی اس کا صلہ یوں ہے۔۔وہ میرے سارے سہانے خواب جن کی تعبیر صرف پنشن تھی ٹوٹ گئے۔۔میں موت سے پہلے مر گیا کیا۔۔اگر مجھے بیکاری بنانا تھا تو جوانی میں کیوں نہیں بنایا گیا اب بوڑھا بیکاری کیا کرے۔۔۔اب میری خدمت انگلی اٹھنے لگے کہ میں نے ڈیوٹی نہیں کی۔۔لوگ کہتے ہیں ملک کی عدالتوں میں انصاف نہیں لیکن قاضی (جج) کو تادم مرگ مراعات ملنی چاہٸیں۔۔۔بڑے بڑے بیروکریٹس خواہ ان کی کارکردگی صفر کیوں نہ ان کو مراعات ملنی چاہیٸں۔۔ممبران پارلیمنٹ کو ان کی شایان شان مراعات چاہیٸں۔۔نئی نٸی گاڑیاں أفیسرز کے لیے خریدنی ہیں۔۔جو کشادہ سڑکوں پر فراٹے بھرتی رہیں۔۔لیکن ایک معمولی استاذ ھو کسی گاوں میں برف میں پھنسے ٹھٹھرتی سردی میں ڈیوٹی دے۔۔کوٸی نرس کمپاونڈر دور کسی بی ایچ یو،أر،ٹی،سی میں جان کھپاتا ریے۔۔دفتروں کے کلرک جن کی زندگیاں فائلوں کی الٹ پھیر میں برباد ہوجائیں۔۔کوٸی فوج پولیس کا سپاہی جس کی جوانی کا معاوضہ چند ہزار پنشن کی صورت میں ہو یہ سب خزانے پر بوجھ ہے۔۔اپنا صوبہ جہان ہر تبدیلی اور ہر اصلاح پہلے آتی ہے اس کا وزیر خزانہ سینہ تان کر کہدے کہ میں نے پنشن اصلاحات پہلی بار اپنے صوبے میں متعارف کرایا۔۔ اس کو پتا نہیں کہ اس نے بوڑھے پنشنر کی بد دعا لے لی۔۔۔اب بوڑھا پنشنر دست بستہ عرض کر رہا ہے کہ سرکاری غلامی کرکے کوٸی اپنی زندگی برباد نہ کرے۔۔ وہ اپنی کہانی کیا سناۓ ایسی کہانی جس کا کوٸی کردار ہی نہیں۔۔۔۔۔۔
تازہ ترین
- مضامینرُموز شاد ۔۔ بد نظری ایک مہلک مرض۔۔ تحریر۔۔ ارشاد اللہ شاد
- ہومخیبرپختونخواہ لائف انشورنس اسکیم شروع کرنے والا ملک کا پہلا صوبہ بن گیا
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”ہجوم سے قوم کب بنیں گے “۔۔محمد جاوید حیات
- ہومڈی۔پی۔او آفس بلچ لوئر چترال میں اردلی روم کا انعقاد
- ہوملوئر چترال پولیس کی جانب سے شہریوں کو دہلیز تک انصاف کی فراہمی کا مشن۔
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔”اطمنان کی دولت”۔۔محمد جاوید حیات
- ہوملوئر چترال پولیس کی جانب سے شہریوں کو دہلیز تک انصاف کی فراہمی کا مشن۔
- مضامیندھڑکنوں کی زبان ۔۔” کیا آئی ایم ایف کو صرف ہم معمولی نوکروں کی پنشن نظر آتی ہے”۔۔محمد جاوید حیات
- ہومعوام کی فلاح و بہبود، ترقی اور تحفظ کے لئے بڑی تعداد میں منصوبے اور سکیمیں منظور کیں۔خیبر پختونخوا کابینہ کا بیسواں اجلاس
- ہوملوئر چترال پولیس کی جانب سے شہریوں کو دہلیز تک انصاف کی فراہمی کا مشن۔