دھڑکنوں کی زبان ۔۔”اطمنان کی دولت”۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

بڑے آفیسر کے مہمان خانے کے باہر چمن میں محفل جمی تھی۔۔بڑا آفیسر پنشن یافتہ جج ہے دوسری کرسیوں میں ایک بڑا پولیس آفیسر ہے۔ ایک فوج کا بڑا افیسر ہے۔۔ایک ڈپٹی کمشنر ریٹائرڈ ہے ایک ٹھیکہ دار ہے۔سب آرام کرسیوں پر براجمان ہیں فربہ جسم ہیں سر کے بال گرے ہیں داڑھیاں سفید ہیں مگر مونڈے ہوۓ ہیں۔کرسیوں پر ایسے جم کے بیٹھے ہیں کہ نیچے زمین شق ہو جاۓ۔ہر ایک کو اپنی فرغونیت جتانے کے لیے اپنی ہنرکاریاں،کامیابیاں،اپنی زندگی کے وہ واقعات جن میں ہیرو رہے ہیں۔۔ بتانا ہے ایک کے بعد ایک قصہ شروع کرتا ہے۔باتوں میں رعونت ہے۔گزری عمروں کا کوئی حساب نہیں۔۔۔سب کو لگتا ہے کہ ابھی زندگی شروع ہی کب کی ہے؟۔۔۔جج صاحب کا بوڑھا نوکر ہے لمبا تڑنگا،گھنی سفید داڑھی،چمکتی آنکھیں،مطمین چہرہ،لہجے میں نرمی عضب کی مٹھاس،ہر ہر حرکت دھیما سا۔۔۔۔یہ جج کی تاحیات مراعات میں شامل ہے۔۔ایک عام سی کرسی پر ایک ریٹائرڈ استاذ بھی بیٹھا ہے سب کو سن رہا ہے۔اس کے چہرے پر افسردگی اور شکستگی کے اثار ہیں۔۔متاع حیات کچھ نہیں۔۔ پنتیس سال نوکری کرنے کے بعد مٹھی بھر پنشن بھی بند ہونے جارہی ہے۔ساری زندگی کہیں سے پروٹوکول نہیں ملا۔شاگردوں کی کامیابی کا خواب بنتارہا۔لیکن یہ کامیاب بگولے زندگی میں جو کچھ سب سے پہلے بھول گئے تھے وہ اساتذہ تھے۔۔البتہ اساتذہ کی کچھ کوتاہیاں ان کو یاد پڑتیں توان کو از راہ مذاق قصے کے طور پر سناتے۔اساتذہ کی نالایقیاں مزے لے لے کے سناتے۔۔۔” ہم پرائمری میں تھے تو ہماراایک استاذ تھا ” یہاں سے قصہ شروع کرتے۔۔استاذ کا دل دھیرے د ھیرے دھڑکتا کہ کہیں سے یہ صاحب لوگ کسی استاذ کا ذکر لے کے نہ بیٹھیں۔۔اتنے میں چاۓ آگئی۔۔بوڑھے نوکر نے نہایت ادب سے چاۓ میز پہ رکھی اور ساتھ ادب سے کھڑارہا۔ پولیس افیسر کو کیا سوجھی کہ بوڑھے نوکر کو مخاطب کیا۔۔چچا کیسے ہو۔۔جناب الحمد اللہ۔۔بڑے مطمین لگ رہے ہو۔۔الحمد اللہ۔۔۔۔تعلیم کچھ ہے ہاں جناب۔۔۔ پھر افیسر نے کہا کہ چچا بڑے مطمین لگ رہے ہو۔۔۔چچا نے پھر وہی جواب دیا۔۔۔جج نے تھوڑی حقارت سیکہا کہ پتہ نہیں آپ اطمنان کسے کہتے ہیں۔۔پھر قہقہا لگا کر کہا کہ مجھے شاعری واعری سے کوئی تعلق نہیں البتہ چچا غالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔۔۔
زندگی جب اس شکل سے گزری غالب۔۔۔
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے۔۔
سب نے پھر قہقہا لگایا تو چچا گویا ہوئے۔۔۔صاحب جی نہایت ادب سے میں زندگی سے بہت مطمین ہوں۔میری پرائمری کا استاذ فرمایا کرتے تھے کہ بچو! زندگی ایک تخفہ ہے اس کو گزارو مت۔۔۔اس کی قدر کرو۔۔۔اس سے لڑو۔۔ میں نے خوب لڑی۔۔ساری زندگی مٹھی بھر حلال کی کمائی کی۔۔کوشش کی کہ میرے ہاتھ اور زبان سے کسی کو نقصان نہ پہنچے۔دنیا کے بکھیڑوں میں کبھی نہیں الجھا۔۔۔۔الجھنے کی حیثیت بھی شکر ہے کہ نہیں تھی۔صاحب جب مر جاوں گا ایک سرد آہ بھر کر کہا کہ قبر میں تین سوالات کا انشا اللہ درست جواب دوں گا اس کا سر آسمان کی طرف تھا محفل میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔پھر گویا ہوا۔۔۔ صاحب اگر قیامت میں پوچھا جاۓ کہ جوانی کو کیسا گزارا تو مسکرا کر کہوں گا کہ جی مجھے جوانی ملی ہی کب تھی؟۔۔۔مجھے ہوش ہی کب تھا؟۔۔۔میں زندگی سے لڑرہا تھا۔۔۔پھر سوال ہوگا کہ دولت کیسے کمایا کہاں خرچ کیا؟ تو پھر مسکراٶں گا کہ دولت تھی کہاں؟ پھر پوچھا جاۓ گا کہ علم کو کیا کیا۔۔۔کہوں گا کہ جتنا علم تھا اس کو کام میں لا کر اتنا کیا کہ حلال حرام،جائز نا جائز،محرم غیر محرم کی حدود میں رہا۔۔ہاتھ کو،زبان کو، پاؤں کو گناہوں سے حد الوسع بچاۓ گا۔۔کسی کو گالی نہیں دی۔۔کس کی غیبت نہیں کی۔۔۔کسی پہ ظلم کیا کرتا؟۔کسی کا حق کیا چھینتا؟ ایسے اوقات ہی نہیں تھے۔عدل کا ساتھ دیا کسی کے لیے کچھ برا نہ سوچا۔۔۔ان سوالوں کا ایسا جواب دوں گا۔۔۔انشا اللہ میرا رب مجھ سے راضی ہوگا۔۔بے غیر حساب کتاب مجھے بخش دے گا۔۔۔میری کیا حیثیت کہ میں ان کی نعمتوں کا شکرگزار ہونے کے قابل ہوں۔ان کی رحمت اور عفو مجھے ڈھانپے گا۔۔۔ ان سوالوں کے جواب کی بھی مجھے توفیق دی جاۓ گی تب جواب دے سکوں گا۔۔۔۔۔۔چچا خاموش ہوگیا۔۔سارے حاضریں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں لرزہ بر اندام تھے۔۔۔رعونتیں ختم ہوگئی تھیں۔۔۔چچا نے کہا ہمارے استاذ کہا کرتے تھے کہ بچو! ہم نے اس زندگی کو قبول ہی نہیں کیا ہے اگر قبول کریں گے تو اس کی خوبصورتی کو بر قرار رکھیں گے۔۔۔یہ دھنگا فساد،یہ حرام حلال کی جھنجھٹ،یہ لالچ بعض کینہ،یہ قتل وغارت گری یہ سب دھندے ختم ہو جائیں گے۔۔یہ دنیا جنت ہے۔۔۔۔۔ جنت رہے گی۔۔پھولوں کی خوشبو،دریاوں کی روانی،پہاڑوں کی عظمتیں،سمندر کی خاموشیاں سب اپنی شان برقرار رکھیں گے۔خاموشی پھر چھا گئی۔۔فوجی افیسر نے اہ بھر کر کہا۔۔۔آپ کے استاذ نے درست کہا تھا۔۔۔چچا آپ کے بچے ہیں۔۔۔ہاں صاحب تین ہیں ایک بیٹی ہے دو بیٹے ہیں۔۔۔اللہ کے دیۓ ہوۓ۔۔۔۔ مہمانوں کے سامنے دھری چاۓ ٹھنڈی ہو گئی۔۔۔چچا نے کہا۔۔صاحب اللہ سب کو اطمنان کی دولت سے نواز دے۔صاحب یہ بہت بڑی دولت ہے۔۔صاحب چاۓ ٹھنڈی ہو گئی۔۔۔۔۔