دھڑکنوں کی زبان ۔۔”یہ ہمارے ہیرے”۔۔محمد جاوید حیات

Print Friendly, PDF & Email

گورنمنٹ ہاٸی سکول بونی کے ہال میں بچیوں کی سریلی آوازیں گونج رہی تھیں کوٸی تقریر کر رہی تھی کوٸی حمد سنارہی تھی کوٸی نعت پڑھ رہی تھی۔۔یہ سالانہ بین السکول ادبی مقابلوں کا سلسلہ تھا یہ وہ بچیاں تھیں جو بچوں کے سکولوں میں پڑھ رہی تھیں اس سال ان کے لیے ڈی ای او اپرچترال نے الگ مقابلے رکھے تھے یہ بچیاں اپنے زونوں سے مقابلے جیت کر آئی تھیں۔۔جج صاحبان اپنی کرسیوں پر براجمان تھے میر محفل ڈپٹی کمشنر اپر چترال اور ڈپٹی ڈی ای او اپرچترال تھے۔۔ہر سکول کے نماٸندہ اساتذہ موجود تھے۔۔سٹیچ سیکریٹری ادبی شخصیت استاذ حیدر علی خان اپنے شرین اور موزون الفاظ بکھیر رہے تھے۔۔بڑی پیاری محفل تھی۔ہماری بچیوں میں صلاحتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوٸی ہیں۔۔
ہال کے ایک کونے میں سٹیچ سے دور ایک میز رکھی ہوئی تھی میز کے ساتھ چمٹی ایک پیاری،دلاری سی بچی اپنے اردگرد سے بے خبر میز پہ جھکی کاغذ پر کچھ بنارہی تھی پوچھنے پر پتہ چلا کہ پینٹگ کر رہی تھی۔۔بچی اتنی معصوم اور پیاری سی تھی کہ اس کو اپنے دوپٹے تک کی فکر نہ تھی کہ سر سے سرک جاۓ تو جاۓ اس کا معصوم چہرہ قابلیت کا چراغ لگ رہا تھا۔۔اس کا استاذ کبھی کبھی آہستہ آہستہ اس کی میز کے قریب جاتا اور واپس آتا۔مختلف مقابلے جاری تھے۔بچیاں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔۔یہ رہی اللہ کے کلام کی تلاوت ہوئی۔یہ حمد پیش کی گٸیں۔یہ نعتیں پڑھی گٸیں۔۔یہ تقریریں،یہ نغمے،یہ سوال جواب کا مقابلہ،یہ قومی ترانہ پڑھا گیا۔۔ یہ مضمون نیویسی کا مقابلہ۔۔۔۔آخر کو اس “میز کا کام ختم ہوگیا ” بچی کے ساتھ ان کے ساتذہ بھی تھے۔۔عرفان اللہ میرے عزیز ان کے استاذ تھیاپنے ساتھی استاذ کے ساتھ بڑے فخر سے ایک فریم اٹھاۓ ہوۓ تھے۔۔پینٹگ فریماٸز کی گٸ تھی۔۔واٹر کلر اور دوسرے رنگوں کا امتزاج تھا۔بچی کے ہاتھوں کی مہارت تھی۔بچی اپنے اساتذہ کے ساتھ خرامان خرامان سٹیچ کی طرف بڑھ رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں فتح کی چمک تھی۔۔نتیجے کا اعلان ہوا پیٹنگ میں گورنمنٹ مڈل سکول شونو ڈی ایس ایس کی شہلا عزیز اول آئی ہیں۔ شہلا عزیز اپنی پینٹگ،اساتذہ اور مہمانوں کے ساتھ سٹیچ پہ کھڑی ہیں ان کو ثرافی اور سرٹفیکیٹ سے نوازہ جارہا پرنسپل حافظ الدیں اور ٹورنمنٹ کے ضلعی سیکریٹری پرنسپل سیف اللہ ان کو ٹرافی پیش کر رہے ہیں۔ان کا کام نمایان ہے وہ ہیرا ہے۔ان کے استاذ عرفان اللہ مجھے کھینچ کر پھر اس میز پر لے جاتے ہیں کہتے ہیں سر یہ شہلا عزیز ہیں اے ڈی ای او عزیز الرحمن تورکھو موڑکھو کی دختر نیک اختر ہیں۔انھوں نے اس سال جماعت نہم کے بورڈ امتحان میں 559 نمبر لے کر ضلعے کو ٹاپ کیا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا یہ قوم اگر اپنی گود میں ایسے ہیروں کی پررورش کرے تو آگے ان کا مستقبل سورج بن جاۓ گا چمکتا دھمکتا سورج۔۔۔۔شہلا قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔سلجھی ہوئی اچھی بچی ہیں یہ اپنی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا سکتی ہیں شرط یے کہ رب ان کو عظیم والدیں اور اصل شیخ مکتب سے نواز دے۔