داد بیداد۔۔قا بل ستائش۔۔ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

اخباری رپورٹوں کے مطا بق حکومت نے سر کاری اخراجات کو کم کرنے کے لئے 29سرکاری اداروں کی نجکاری کے ساتھ 23غیر فعال محکموں کو ختم کرنے کا اصو لی فیصلہ کر لیا ہے اس کام کے لئے باقاعدہ منصو بہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے جس کے تحت مر حلہ وار طریقے سے قدم اٹھا یا جا ئے گا سردست ہوائی اڈوں کے ساتھ پا کستان انٹر نیشنل ائیر لائنز (PIA)، پا کستان سٹیل ملز، پا کستان ریلوے، سپورٹس کمپلکس اور کنونشن سنٹر کی نجا ری ہو گی، اس طرح جن سر کاری اداروں کو بند کرنے کا پرو گرام ہے ان میں انفارمیشن ٹیکنا لو جی (IT)، کشمیر افیرز، سیفران، وزارت پیدوار، وزارت تعلیم اور وزارت صحت شامل ہیں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ محکمے وفاق کے پا س رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا، اسی طرح زراعت، خوراک جنگلات اور دیگر محکموں کو بھی ختم کیا جائے گا سرکاری اخرا جات میں بچت ہو گی تو باربار آئی ایم ایف سے قرض لینے کی ضرورت نہیں رہے گی ذرائع ابلا غ کے ساتھ جڑے ہوئے لو گوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پہلے کنکر نٹ لسٹ کو ختم کر کے اختیار ات صو بوں کو منتقل کرنے کا مطا لبہ باربار دہرایا جا تا تھا، ہر حکومت کنکرنٹ لسٹ کا دفاع کر تی تھی اور اس کو مر کز کی مضبو طی کا ضا من قرار دیتی تھی جبکہ ہر دور میں حزب اختلاف چاہتی تھی کہ آئین سے کنکر نٹ لسٹ کو نکا ل کر اختیارات صو بوں کے حوالے کئے جا ئیں تا کہ ملک کی ہر اکائی اپنے معا ملات اور اپنا نظم و نسق چلا نے میں آزاد اور با اختیار ہو، نیشنل پریس ٹرسٹ کو توڑ نے اور اسمبلی توڑ نے کے صدارتی اختیارات کو واپس لینے کے مطا لبات بھی بہت مقبول تھے نیشنل پریس ٹرسٹ کو بے نظیر دور میں توڑ ا گیا1994میں ٹرسٹ کے اخبارات نجی شعبے کو فروخت کئے گئے اسمبلی توڑ نے کا صدارتی اختیار58(2)Bاٹھارویں ترمیم کے ذریعے 8اپریل 2010کو ختم کردیا گیا اس پر فوری عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن کنکرنٹ لسٹ کو ختم کرنے پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا تھا چنا نچہ وفاقی سطح پر 23محکموں کو ختم کرنا آئین کے بنیا دی تقا ضوں میں شامل ہے اس لئے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جا نا چا ہئیے اور اس فیصلے کی ستائش ضرور ہو گی تا ہم مقطع میں سخن گسترانہ بات آجا تی ہے ہمارے ملک کی مو جود ہ معا شی بد حا لی اور ابتری کے تنا ظر میں ہمارے ہاں وی آئی پی پرو ٹو کول اور سیکیورٹی کے اخرات پر بھی نظر ثا نی کی ضرورت ہے ایک کمیٹی بنا ئی جا ئے جو جنو بی کوریا، جا پان، سنگا پور، فرانس، اٹلی اور جر منی میں وی آئی پی پرو ٹو کول کے ا خرا جات کا جا ئزہ لے، متحدہ عرب امارات، برو نائی، سعودی عرب اور بر طا نیہ میں بادشاہوں کے پر وٹو کول اور سیکیورٹی اخرا جات کا اندازہ لگا کر پا کستان کے ساتھ چار امیر ترین باد شا ہوں کے پرو ٹو کول اور سیکیورٹی اخرا ت کا موازنہ کرے تو یقینا پا کستان جیسے مقروض اور مفلو ک الحا ل ملک کے باد شاہوں کے پرو ٹو کول، شوشا اور سیکیورٹی کا خر چہ دنیا کے امیر ترین باد شاہوں سے دس گنا زیا دہ نکلے گا یہ اخرا جات کا ایسا مد ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں انگریزی میں اس کو ”نا ن پرو ڈکٹیو“ یعنی ”غیر مفید“ مد کہا جا تا ہے، ایسے مدات اور بھی ہیں بقول شاعر ”بات چل نکلی ہے دیکھئے کہاں تک پہنچے“ جہاں تک سرکاری اداروں کی نجکا ری کا معا ملہ ہے اس کی بڑے پیمانے مخا لفت ہو رہی ہے اور مخا لفت کی کئی وجو ہات ہیں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جن گروہوں نے مل کر ان سرکاری اداروں کو کھنگال کیا ہے وہ ایسے گروہ ہیں کہ اپنی کما ئی ہوئی دولت کا سہا را لیکر نجکاری کے خلاف مہم کے لئے فنڈ فراہم کر رہے ہیں خسا رے میں جا نے والے سرکاری ادارے ان گرو ہوں کے لئے دودھ دیتی بھینس کا در جہ رکھتے ہیں ایسی مفید بھینس کو ہاتھ سے جا تے ہوئے دیکھ کر وہ شو ر مچا تے ہیں کہ ”بچاؤ“ میری بھینس کو میں نے اس کے دودھ سے اپنا کاروبار چمکانا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ سیا ست دانوں کا ایک طبقہ ہر سال اپنے کار کنوں کو سرکاری اداروں میں بلا جواز بھر تی کروا تا ہے سیا سی کارکن سرکاری ادارے میں کسی کام کے قابل نہیں ہوتے وہ گھر بیٹھ کر سرکاری اداروں سے بھا ری تنخوا ہیں وصول کر تے ہیں ان کے لئے سرکاری ادارے کی مثال سونے کا انڈہ دینے والے پرندے کی طرح ہے، پرندہ اڑگیا تو سونے کا انڈہ کون دیگا؟ مسلے کا واحد حل یہ ہے کہ سرکاری ادارے کسی سیٹھ، سا ہو کار کے ہاتھ فروخت کر کے قومی خزانے کو کھا نے والے طفیلی کیڑوں سے جان چھڑا ئی جا ئے اس طرح پی آئی اے،سٹیل ملز اور ریلوے جیسے کئی سرکاری ادارے منا فع دینے لگینگے۔