داد بیداد۔۔زیرا لتوا مقدمات۔۔ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

Print Friendly, PDF & Email

ایک بار پھر یہ خبر آئی ہے کہ ہماری عدالتوں میں ڈیڑھ لا کھ مقدمات التوا کا شکار چلے آرہے ہیں سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 58ہزار ہے ان میں سے 10ہزار مقدمات فو جداری نو عیت کے ہیں 32ہزار اپیلیں زیر التوا پڑی ہوئی ہیں انمیں سے 3324جیل پٹیشنز کہلا تے ہیں جو فوری سما عت اور فیصلے کے متقا ضی ہوتے ہیں اگر ایک مقدمے کے زیر التوا ہونے سے کم ازکم 200افراد متاثر ہوتے ہوں تو 58ہزار مقدمات 20سال سے لیکر 40سال تک لٹکتے رہنے سے کم ازکم ایک کروڑ 16لا کھ کی آبادی متا ثر ہوتی ہے عدلیہ کی ساکھ مجروح ہو تی ہے نظام انصاف کی شفا فیت پر سوا لات اٹھا ئے جا تے ہیں قانون کی حکمرانی کاخواب کسی حد تک بکھر جا تا ہے اور انگریزی کا وہ مقولہ صادق آتا ہے جس کا مطلب ہے انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن جہاز وں نے لندن پر بمباری کی تو بر طا نیہ کے وزیراعظم ونٹسن چر چل نے چیف جسٹس کے گھر پر حا ضری دی اور ان سے پو چھا مجھے سچ سچ بتاؤ کیا ہماری عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا میں حلفیہ کہتا ہوں کہ ہماری عدالتوں میں پورا پورا نصاف ہوتا ہے اس کے بعد چر چل نے ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا اور چیف جسٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہماری عدالتوں میں اگر انصاف ہورہا ہے تو تسلی رکھو دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ ے گا بر طانوی قوم کا میاب اور سر خرو ہو گی خلیفہ راشد حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے 1400سال پہلے یہ بات کہی تھی کہ کفر کا نظام باقی رہ سکتا ہے ظلم کا نظام باقی نہیں رہ سکتا اور ظلم کا لفظ عدل یا انصاف کی ضد ہے جہاں عدل اور انصاف نہیں ہوگا لا محالہ وہاں ظلم ہوگا ظلم کا نظام ملک اور قوم کو تباہ و بر باد کر دے گا ہمارے ایک دوست کا دیوانی مقدمہ 18سالوں سے لٹکا ہو اتھا ان کا بھا ئی نا مور وکیل تھا اور یہ کیس ان کے پا س تھاوہ کہا کرتا تھا فکر مت کرو اگر وقت بہت لگا تو فیصلہ میرٹ پر ہو گا 1988ء میں ایک پہاڑی سٹیشن پر شہر یار سرور کی عدالت لگا کر تی تھی وہ کپٹن سرور شہید نشان حیدر کے بیٹے تھے باپ کی شہا دت کے بعد وہ انگلینڈ میں اپنے نا نا کے پا س چلے گئے سکول اور کا لج سے یونیور سٹی تک وہاں تعلیم حا صل کی واپس آکر مجسٹریٹ لگ گئے ان کا طریقہ یہ تھا کہ فو جداری مقدمے کو دو ہفتوں میں ٹھکا نے لگا تے تھے، دیوانی مقدمہ آتا تو ایک مہینے میں فیصلہ سنا کر مقدمہ ختم کر دیتے مگر المیہ ایسا ہوا کہ اُس کے خلاف جلو س نکا لا گیا اور اس کی تبدیلی کے لئے سر توڑ کو شش کی گئی میں نے ایک سینئر قانون دان سے پو چھا شہر یار سرور میں کیا کمی اور کمزوری ہے؟ اُس نے کہا آدمی بہت اچھا ہے مگر قانون سے با خبر نہیں، میں نے کہا لو گ اس کو دعا دیتے ہیں، وہ بولے عوام بھی قانون سے واقف نہیں ہیں، گویا مقدمے کا التوا قانون ہے اور فیصلہ قانون سے نا واقفیت ہے جنون کوخرد کا نا م دیا خر د کو جنوں کہا جو چا ہے تیرا حسن کر شمہ ساز کرے پا کستان کی عدلیہ میں مقدمات کے غیر معمولی التوا کی بے شمار وجو ہات میں سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وسائل پر قابض جا گیر دار اور سرمایہ دار طبقہ اعلیٰ عدالتوں کو ایسے مقدمات میں الجھا تا ہے جن کا ملک اور قوم سے تعلق نہیں، عوام سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا، سیا سی جما عتیں اپنے گندے کپڑے عدالتوں میں لا کر دھو تی ہیں، اسمبلی، پا رلیمنٹ، وزیر اعظم، الیکشن اور نیب (NAB) کے بے بنیاد مقدمات پر عدالت کا وقت ضا ئع ہوتا ہے قوم کی بھلا ئی اور انصاف کی فراہمی سے ان مقدمات کا دور دور تک تعلق نہیں ہوتاپا نا مہ کیس سے لیکر عدت کیس تک 151ایسے مقدمات گذشتہ 10سالوں میں آئے جو بے معنی اور فضول مقدمات تھے اگر ایسے مقدمات میں الجھا کر عدالت کا وقت ضا ئع نہ کیا گیا تو غریبوں کو انصاف ملے گا کوئی مقدمہ 40سال زیر التوا نہیں رہے گا عدلیہ کی ساکھ بحا ل ہو گی عدالت پر عوام کا اعتماد ہو گا اور قانون کی حکمرانی سب کو نظر آئیگی۔